فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، قرآن اور احادیث میں

فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا، قرآن اور احادیث میں

قوله (ص): "فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز جل"

قوله ): "فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز جل"

حضرت فاطمہ زہراء علیہا السلام صنف نسواں میں اسلام کی تنہا صاحب عصمت خاتون ہیں کہ جس کی عصمت قرآن اور حدیث کی روشنی میں ثابت ہے اور ان کی پُر افتخار زندگی اس بات پر دوسری دلیل ہے۔

حضرت زہراء علیہا السلام کے دنیا میں آنے کا اہتمام جنت کی پاک غذا سے ہوا۔ رحم مادر ہی میں ماں کےلئے ایک بہترین ساتھی اور مونس شمار ہوتی تھی اور دوران ولادت جن باعظمت مخدرات عصمت کو غیب سے بھیجا گیا تھا، ان سے گفتگو کی اور آپ کی محدود حیات طیبہ میں عقل کو حیران کردینے والی سینکڑوں کرامات ظاہر ہوئیں یہ تمام باتیں اس باعظمت خاتون کی عصمت کی حکایت کرتی ہیں۔

حضرت فاطمہ علیہا السلام عالم اسلام کی خواتین کےلئے اسوہ حسنہ کے طور پر پہچانی جاتی ہیں، دوسری عورتوں کےلئے ضروری ہےکہ ان کی پاک سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل قرار دیں؛ تربیت، اخلاق اور خود سازی کے عملی میدان میں ان کی پیروی کریں؛ عبادت کے طریقے اور روش، شوہرداری، بچوں کی پرورش اور لوگوں کے حقوق کے بارے میں ان کو آئیڈیل بنایا جائیں؛ ان تمام کرداروں کو نبھانا چاہیے جن کو انہوں نے نبھایا ہے اور اس طرح برتاؤ کرنا چاہئے جس طرح انہوں نے کیا ہے۔

حضرت زہراء علیہا السلام اپنے باپ کے ساتھ اور باپ کے گھر میں بہترین امتحان دے چکی ہیں اور اس طرح "فداھا ابوھا" اور "امُّ ابیھا" جیسے دسیوں القابات، پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ کی زبان مبارک سے حاصل کرکئے اور شوہر کےگھر میں اس طرح پیش آئیں کہ امیرالمؤمنین علیہ السلام فرماتے ہیں:" فاطمہ (س) نے اپنی پوری زندگی میں کوئی ایسا چھوٹا کام بھی انجام نہیں دیا جس سے میں ناراض ہو جاؤں اور کبھی میری نافرمانی نہیں کی بلکہ اپنے اخلاق اور نیک سلوک سے میرے غم اور پریشانیوں کو دور کیا"۔


عصمت فاطمہ (س) پر قرآن پاک کی گواہی

خداوند عالم سورہ احزاب، آیت۳۳ میں فرماتا ہے: إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً  بےشک خداوند عالم چاہتا ہےکہ تمام پلیدی اور گناہ کو آپ اہل بیت سے دور رکھے اور مکمل طور پر پاک و منزہ قرار دے جو پاک رکھنے کا حق ہے۔

یہ آیہ شریفہ شہادت دیتی ہےکہ اہل بیت علیہم السلام، پاک اور معصوم ہیں اور کوئی گناہ نہیں کرتے ہیں "الرجس" جو آیت میں آیا ہے، تمام گناہان صغیرہ اور کبیرہ کو شامل کرتا ہے جس سے اہل بیت دور ہیں۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ اس آیہ شریفہ میں اہل بیت سے مراد کون ہیں؟

اہل سنت کی معتبر روایات اور پیغمبر اسلام صلی اللّہ علیہ و آلہ کی ازواج کے اظہارات اور اعترافات اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ اہل بیت سے مراد پنجتن آل عبا ہیں؛ ان ہستیوں میں سے ایک حضرت زہراء علیہا السلام کی ذات مبارک ہے۔ پس اسی بنا پر فاطمہ زہراء (س) قرآن مجید کی گواہی کے مطابق، صاحب عصمت پ

ہیں۔

عصمت فاطمہ (س) پر رسول اسلام ؑ کے کلام

رسول اکرم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کی بہت ساری احادیث جسے اہل سنت اور شیعہ دونوں نے نقل کیا ہے؛ آنحضرت ) نے فاطمہ (س) کو اپنا ٹکڑا کہا اور فرمایا: جو فاطمہ (س) کو دوست رکھتا ہے اس نے مجھے دوست رکھا؛ اس کا دشمن، میرا اور خدا کا دشمن ہے۔

حدیث کے روسے خدا کی رضا اور ناراضگی کا ایک معیار، فاطمہ علیہا السلام ہے؛ اگر فاطمہ (س) معصوم نہ ہو تو کیسے پیغمبر خدا صلی اللّہ علیہ وآلہ نے بغیر کسی شرط اور قید کے فاطمہ (س) کی خوشنودی کو خدا کی خوشنودی اور فاطمہ (س) کی ناراضگی کو خدا کی ناراضگی قرار دیا؟ کیا غیر معصوم لوگوں کی خوشی اور ناراضگی کو خدا کی خوشی اور ناراضگی کا معیار قرار دیا جا سکتا ہے؟

سنی عالم دین اور شارح نہج البلاغہ، ابن ابی الحدید معتزلی، اس اعتراف کے بعد کہ آیہ تطہیر فاطمہ (س) کی عصمت پر دلالت کرتی ہے، لکھتا ہے:

قوله ): "فاطمة بضعة منى، من آذاها فقد آذانى، و من آذانى فقد آذى اللَّه عز جل" يدل على عصمتها، لانها لو كانت ممن تقارف الذنوب لم يكن من يوذيها موذيا له على كل حال...

فاطمہ علیہا السلام کے بارے میں

نبی اکرم (ص) کےکلام فاطمہ (س) کےمتعلق کہ جس نے اسے (فاطمہ) کو دکھ دیا اس نے مجھے دکھ دیا اور جس نے مجھے اذیت دی اس نے خدا کو اذیت دی؛ یہ فاطمہ (س) کی عصمت پر دلیل ہے، کیوںکہ اگر فاطمہ (س) معصوم نہ ہوتی تو فاطمہ (س) کا دکھ ہر حال میں، پیغمبر اسلام (ص) کا دکھ، شمار نہ ہوتا۔

[شرح نہج البلاغہ، ج۱۶، ص۲۷۳]


عصمت فاطمہ (س) پر امیرالمؤمنینؑ کے کلام

جب پیغمبر اکرم صلی اللّہ علیہ و آلہ کی رحلت کے بعد، خلیفۂ اول نے فدک کو غصب کیا تو حضرت فاطمہ علیہا السلام نے اس کے ساتھ احتجاج اور مناظرہ کیا۔ امیرالمؤمنین علیہ السلام بھی حضرت زہرا (س) کے خطبہ اور احتجاج کے بعد، مسجد گئے اور ابو بکر سے سوال کیا:

اے ابوبکر بتاؤ! تم نے قرآن پڑھا ہے؟

ابو بکر: جی ہاں! پڑھا ہے۔

علی ): آیہ تطہیر " إِنَّما يُريدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً پڑھ کر بتاؤ کہ یہ آیت ہمارے حق میں نازل ہوئی ہے یا دوسروں کے؟

ابو بکر: آپ کے حق میں نازل ہوئی ہے۔

علی ): اگر کوئی فاطمہ (س) کےخلاف گواہی دےکہ انہوں نے خلاف شریعت کوئی عمل انجام دیا ہے تو تم اس وقت کیا کروگے؟ اس شخص کی گواہی کو قبول کروگے یا نہیں؟

ابو بکر: جی ہاں! میں اس آدمی کی گواہی کو قبول کروں گا اور فاطمہ (س) پر دوسرے لوگوں کی طرح حد جاری کروں گا۔

علی (ع): اس صورت میں تم خدا کے ہاں کافر قرار پاوگے۔

ابو بکر: کیوں؟

علی ): کیونکہ اس فرض کی بنا پر تم نے خدا کی گواہی کو جو خدا نے فاطمہ (س) کی طہارت پر دی ہے، رد کیا ہے اور لوگوں کی گواہی کو مقدم کیا ہے۔

اسی طرح تم نے خدا اور رسول کی گواہی کو یہاں نظر انداز کیا ہے اور فدک کو فاطمہ (س) سے چھین لیا ہے۔

اے ابو بکر! کیا فدک فاطمہ (س) کے ہاتھ میں نہیں تھا؟ جو چیز ان کی ملکیت میں ہے تم کیوں کیسے خود ان سے، اس کے متعلق گواہ مانگتے ہو؟!

چونکہ لوگ امیرالمؤمنین علیہ السلام اور ابو بکر کی گفتگو سن رہے تھے، ایک دوسرے کو دیکھنے لگے اور کہا کرتے تھے: "صَدَّقَ وَ اللّہ عَلِی ابن اَبِی طَالِب" خدا کی قسم! علی ابن ابیطالب (ع) نے سچ کہا ہے۔

احتجاجات طبرسى، طبع نجف، ج1، ص122

پس نتیجہ یہ ہوا کہ نبی اللہ الاعظم صلی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم کے فرامین، فاطمہ سلام اللہ علیہا کی عصمت پر واضح  دلیل ہیں، جسے شیعہ اور اہل سنت کے منصف اور دانشور بھی مانتے ہیں:

و ان مريم احصنت فرجها        جاءت بعيسى كبدر الدجى

فقد احصنت فاطم بعدها        و جاءت بسبطى نبى الهدى

حضرت مریم (س) اپنی عصمت سے حضرت عیسی (ع) کو لے آئی جو سورج کیطرح چمکتا اور منور رہے اور حضرت فاطمہ زہراء (س) نے بھی عصمت سے زندگی کی اور دو انوار کو نبی اکرم (ص) کے حوالہ کیا۔

والسلام علی من اتبع الھدی – التماس دعا

 

حوالہ:  jrbpk.com  سے اقتباس

ای میل کریں