ابھی کچھ وقت باقی ہے

ابھی کچھ وقت باقی ہے

میں حضرت امام حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا

میں امام خمینی (رح) کے نجف آنے سے پہلے خواب دیکھا کہ ایران میں اور خصوصا خوزستان میں جنگ کا سا منظر ہے، تمام کھجوروں کے سر یا توکٹ چکے ہیں یا پھر جل گئے ہیں۔ ایسے میں میرے ایک رشتہ دار شہید ہوچکے ہیں اور ان کے کچھ دن بعد میرے بھائی حاج آقا مہدی بھی جنگ میں شہید ہوچکے ہیں۔ البتہ یہ جنگ بہت طولانی مدت تک رہی لیکن ایران کی فتح کے ساتھ اس کا خاتمہ ہوا ہے۔

خواب کے اس سارے وقت میں مجھے ایسا احساس رہا کہ یہ جنگ حضرت سید الشہداء امام حسین (ع) اور ان کے دشمنوں کے مابین ہے۔ لہذا جیسے ہی جنگ ختم ہوئی، تو میں نے پوچھا:

مولا حسین (ع) کہاں ہیں؟ اوپر والی منزل کی طرف اشارہ کرکے مجھے کہا گیا وہاں ہیں۔ جب میں وہاں پہنچا تو میں نے دیکھا اس منزل پر دو کمرے ہیں ایک دائیں طرف ہے اور دوسرا بائیں طرف ہے۔ میں حضرت امام حسین (ع) کی خدمت میں حاضر ہوا اور سلام عرض کیا۔ اسی لمحے میری آنکھ کھل گئی۔

 جب امام (رح) نجف میں تشریف لائے تو میں نے یہ خواب امام (رح) کو سنایا، آپ نے تبسم فرماتے ہوئے کہا: ایسا ہوکے رہے گا۔ میں نے عرض کی وہ کیسے آقا؟ آپ (رح) نے فرمایا: آخر اس طرح کی بات کا پته چل ہی جاتا ہے۔ جب میں نے دوبارہ اصرار کیا تو آپ نے فرمایا:

میں ایک نکتہ آپ کو بتاتا ہوں لیکن یاد رکھیں کہ جب تک میں زندہ ہوں اسے کسی کے سامنے بیان نہیں کرنا ہے۔ جس زمانے میں قم میں (امام (رح) کے علم عرفان کے استاد) کی خدمت میں ہوا کرتا تھا تو ان سے بہت زیادہ محبت کیا کرتا تھا۔ یہاں تک کہ میں ان کا قریبی ترین فرد تھا۔ اور استاد محترم بھی مجھے اپنی خفیہ باتوں میں شریک رکھا کرتے تھے اور مجھے اپنے رازوں کا نامحرم تصور کیا کرتے تھے۔ ایک دن استاد محترم نے میرے لئے مستقبل کی مسئولیت اور اس کے انجام دینے کے راستے کو بیان فرمایا، لہذا اس کا بیان یہاں پر جلد بازی ہے، کیونکہ اس کا ابھی تک وقت نہیں آیا ہے۔ ابھی کچھ وقت باقی ہے۔

(انقلاب اسلامی ایران کے بعد ایران عراق جنگ کے دوران) جب میری نظریں کھجوروں کے ان باغات پر پڑیں کہ جن کے سر یا کٹ چکے تھے یا جل چکے تھے اس وقت مجھے اپنا وہ خواب یاد آیا اور اس کے ساتھ ساتھ امام (رح) کی وہ بات بھی یاد آئی۔ اس کے بعد جب 1363ش میں میرے بھائی حاج آقا مہدی بھی شہید ہوگئے اس وقت پھر مجھے اپنا وہ خواب اور امام (رح) کی وہ بات یاد آئی۔

پا بہ پای آفتاب، ج 2، ص 261

ای میل کریں