فاطمہ الزہراء(س) نے انس سے پوچھا: تمہارے دل، رسول اللہ کی نعش پر مٹی ڈالنے کےلئے کس طرح آمادہ ہو گئے تھے؟
ہر مسلمان پر واجب ہےکہ وہ سب سے پہلے اپنے ایمان اور عقیدہ کی اصلاح کرے اور وہی عقیدہ اختیار کرے جو نبی (ص) اور صحابہء کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کا عقیدہ تھا؛ اگر کوئی مسلمان غیر اسلامی عقیدہ کے ساتھ پوری زندگی، عبادت الہی میں مصروف رہے پھر بھی وہ اللہ رب العالمین کی جنت کا مستحق نہیں ہو سکتا، کیونکہ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں اور محمد رسول اللہ (ص) نے اپنی احادیث صحیحہ میں بڑی کثرت سے جملہ اعمال صالحہ کی قبولیت کےلئے سب سے پہلی شرط، ایمان و عقائد کی اصلاح ہی کو قرار دیا ہے، مثلاً ارشاد ربانی ہے:
"لَیْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّواْ وُجُوہَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَـکِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ وَالْمَلآئِکَۃِ وَالْکِتَابِ وَالنَّبِیِّیْنَ وَآتَی الْمَالَ ... أُولَـئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوا وَأُولَـئِکَ ہُمُ الْمُتَّقُونَ"
ساری اچھائی مشرق و مغرب کیطرف منہ کرنے میں ہی نہیں بلکہ حقیقتاً اچھا وہ شخص ہے جو اللہ تعالیٰ پر، قیامت کے دن پر، فرشتوں پر، کتاب اللہ پر اور نبیوں پر ایمان رکھنے والا ہو، جو مال سے محبت کرنے کے باوجود قرابت داروں، یتیموں، مسکینوں، مسافروں اور سوال کرنے والوں کو دے، غلاموں کو آزاد کرے، نماز کی پابندی اور زکوۃ کی ادائیگی کرے، جب وعدہ کرے تو اسے پورا کرے، تنگدستی، دکھ درد اور لڑائی کے وقت صبر کرے اور یہی سچے لوگ ہیں اور یہی پرہیزگار ہیں۔ (سورۃ البقرۃ :١٧٧)
دور حاضر کے مسلمانوں میں جو عقائد باطلہ رواج پاچکے ہیں انہیں عقائد باطلہ میں سے انکار وفات رسول (ص) کا عقیدہ بھی ہے، اس عقیدہ سے متعلق مسلمانوں میں دو نظرئیے پائے جاتے ہیں:
1/۔ رسول اکرم (ص) اپنی دنیوی زندگی گزارنے اور وفات کے بعد، اب برزخی زندگی گزار رہے ہیں۔
۲/۔ رسول اکرم (ص) اپنی وفات کے بعد، برزخ میں بھی بالکل دنیاوی زندگی کی طرح زندہ ہیں اور ان کی دنیاوی و برزخی زندگی میں کوئی بھی فرق نہیں۔
قرآن و حدیث کی روشنی میں صرف پہلا نظریہ ہی صحیح ہےکہ رسول اکرم (ص) اپنی وفات کے بعد، اب برزخی زندگی گزار رہے ہیں اور انکی برزخی زندگی، دنیاوی زندگی سے بالکل مختلف ہے؛ ارشاد ربانی ہے:" إِنَّکَ مَیِّتٌ وَإِنَّہُم مَّیِّتُون" یقیناً خود آپ کو بھی موت کا مزہ چکھنا ہے اور یہ سب بھی مرنے والے ہیں۔ (سورۃ زمر ٣٠) اور ان کی برزخی زندگی کو بالکل دنیاوی زندگی کی طرح قرار دینا، سراسر گمراہی ہے۔
صاحب تفسیر احسن البیان، صفحہ١٠٨٥ پر مذکورہ آیت کریمہ کی تفسیر کرتے ہوئے فرماتے ہیں:" اس آیت سے بھی وفات النبی (ص) اثبات ہوتا ہے اور یہ عقیدہ رکھنا کہ آپ (ص) کو برزخ میں بالکل اسی طرح زندگی حاصل ہے جس طرح دنیا میں حاصل تھی، قرآن کے نصوص کے خلاف ہے۔ آپ (ص) پر بھی دیگر انسانوں ہی کی طرح موت طاری ہوئی، اسی لئے آپ (ص) کو دفن کیا گیا، قبر میں آپ کو تو برزخی زندگی یقینا حاصل ہے جس کی کیفیت کا ہمیں علم نہیں، لیکن دوبارہ قبر میں آپ کو دنیوی زندگی عطا نہیں کی گئی"۔
عائشہ سے روایت ہےکہ جب رسول اللہ (ص) کی وفات ہوئی، ابوبکر مسجد میں تشریف لے گئے، پھر کسی سے گفتگو کئے بغیر نبی (ص) کیطرف گئے، رسول اکرم (ص) کو یمن کی بنی ہوئی دھاری دار چادر سے ڈھانک دیا گیا تھا، پھر ابوبکر نے کہا: میرے مان باپ، آپ پر قربان ہوں، اے اللہ کے نبی! موت، آپ (ص) کے مقدر میں تھی، پس آپ (ص) وفات پاچکے۔
ابو سلمہ نے کہا کہ مجھے ابن عباس نے خبر دی کہ ابو بکر صدیق جب باہر تشریف لائے تو عمر لوگوں سے کہہ رہے تھےکہ "واللہ ما مات رسول اللہ"، اللہ کی قسم رسول اللہ کی وفات نہیں ہوئی ہے!! تو ابوبکر نے فرمایا کہ "عمر بیٹھ جاؤ"! لیکن عمر نہیں مانے، دوبارہ ابو بکر نے بیٹھنے کو کہا، لیکن عمر پھر نہیں مانے؛ آخرکار، ابو بکر نے کلمہء شہادت پڑھا تو تمام مجمع آپ کیطرف متوجہ ہو گیا اور ابو بکر نے عمر کو اسی حال پر چھوڑ دیا۔
اس موقع پر ابو بکر نے فرمایا: اما بعد! اگر کوئی شخص تم میں سے محمد کی عبادت کرتا تھا تو اسے معلوم ہونا چاہیئے کہ محمد کی وفات ہو چکی اور اگر کوئی اللہ کی عبادت کرتا ہے تو اللہ باقی رہنے والا ہے، وہ کبھی مرنے والا نہیں، اللہ تعالی نے فرمایا ہے:
" محمد صرف اللہ کے رسول ہیں اور بہت سے رسول اس سے پہلے بھی گزر چکے، پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکےگا اور اللہ عنقریب شکرگزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے'' پھر تو ہر شخص کی زبان پر یہی آیت تھی۔
[صحیح بخاری: ١٢٤٢۔١٢٤١]
پہلا نظریہ کی تصدیق پر ایک اور دلیل یہ ہےکہ ام المومنین عائشہ سے روایت ہےکہ مرض الموت میں رسول اللہ (ص) نے فاطمہ (س) کو بلایا اور ان سے آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ رونے لگیں، پھر دوبارہ آہستہ سے کوئی بات کہی جس پر وہ ہنسنے لگیں!! پھر ہم نے ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے بتلایا کہ نبی (ص) نے مجھ سے فرمایا:
آپ (ص) کی وفات اسی مرض میں ہوجائےگی، یہ سن کر میں رونے لگی، دوسری مرتبہ جب آپ (ص) نے مجھ سے سر گوشی کی تو یہ فرمایا: آپ (ص) کے گھر کے آدمیوں میں سب سے پہلے، میں، آپ (ص) سے جاملوں گی تو میں ہنسی تھی۔
[صحیح بخاری: ٤٣٣٤،٤٣٣]
ام المومنین عائشہ سے روایت ہےکہ رسول اللہ (ص) باربار فرماتے تھے: " لا الٰہ الا اللہ" موت کے وقت شدت ہوتی ہے، پھر آپ اپنا ہاتھ اٹھا کر کہنے لگے: '' فی الرفیق الاعلیٰ فی الرفیق الاعلیٰ'' یہاں تک کہ آپ (ص) رحلت فر ماگئے۔ [صحیح بخاری: ٤٤٤٩]
اور انس بن مالک سے روایت ہےکہ شدت مرض کے زمانے میں جب نبی کریم (ص) کی بےچینی بےحد بڑھ گئی تو فاطمہ الزہراء (س) نے کہا:'' آہ! ابا جان کو کتنی تکلیف ہے"، اس پر رسول اللہ (ص) نے فرمایا:'' آج کے بعد، تمہارے ابا جان پر کوئی بےچینی نہیں ہوگی''
جب آپ (ص) وفات پاگئے تو فاطمہ الزہراء (س) نے فرمایا:'' ہائے ابا جان! رب نے انہیں بلایا تو انہوں نے رب کی پکار پر لبیک کہا، ہائے ابا جان! جنت الفردوس ان کا ٹھکانا ہے، ہائے ابا جان! ہم جبریل علیہ السلام کو آپ کی موت کی خبر سناتے ہیں''
جب نبی (ص) کو دفنا دیا گیا تو فاطمہ الزہراء (س) نے انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا: تمہارے دل، رسول اللہ (ص) کی نعش پر مٹی ڈالنے کےلئے کس طرح آمادہ ہو گئے تھے؟
[صحیح بخاری: ٤٤٦٢]
منگل کے روز، آپ (ص) کو کپڑے اتارے بغیر غسل دیا گیا، غسل دینے والے حضرات میں علی، عباس اور عباس کے دو صاحبزادگان موجود تھیں اور علی رضی اللہ عنہ غسل دے رہے تھے، اس کے بعد آپ (ص) کو تین سفید یمنی چادروں میں کفنایا گیا۔
آپ کی آخری آرامگاہ وہیں ہوئی جہاں نفس زکیہ، معراج کیطرف پرواز کرگئی اور اسی کے نیچے لحد والی قبر کھودی گئی، اس کے بعد، باری باری صحابہء کرام نے حجرہ شریفہ میں داخل ہو کر نماز جنازہ پڑھی، کوئی امام نہ تھا، سب سے پہلے آپ (ص) کے خانوادے بنو ہاشم نے نماز جنازہ پڑھی، پھر مہاجرین نے، پھر انصار نے، پھر مردوں کے بعد عورتوں نے اور ان کے بچوں نے؛ نماز جنازہ پڑھنے میں منگل کا پورا دن گزر گیا اور بدھ کی رات آ گئی، رات میں آپ (ص) کے جسد پاک کو سپرد خاک کیا گیا۔
الٰہ العالمین! تمام مسلمانوں کے عقائد و اعمال کی اصلاح فرما اور ہمیں ایمان کی موت کے ساتھ ساتھ، محمد و آل محمد کے ہمنشینی، نصیب فرما آمین
التماس دعا