انسان کا حقیقی مقصد اس اعلی اخلاق کی جانب پلٹنا ہے؛ تہذیب نفس انجام دینا اور انسان کو حکمت کی جانب لے جانا ہے؛ جہالت سے نکال کر حکیمانہ زندگی اور فہم و فراست کی جانب لے جانا ہے۔
تاریخ کا سب سے عظیم اور بابرکت دن، 27 رجب المرجب کا دن ہے۔ یہ دن انسانی تاریخ کا سب سے بڑا اور عظیم دن ہے کیونکہ وہ جو خداوند متعال کا مخاطب قرار پایا اور اس کے کاندھوں پر ذمہ داری ڈالی گئی، رسول اعظم صلی اللہ علیہ وآلہ تاریخ کا عظیم ترین انسان اور عالم وجود کا سب سے قیمتی سرمایہ اور ذات اقدس الہی کے اسم اعظم کا مظہر یا دوسرے الفاظ میں، خود اسم اعظم الہی تھا اور دوسری طرف وہ ذمہ داری جو اس عظیم انسان کے کاندھوں پر ڈالی گئی یعنی نور کی جانب انسانوں کی ہدایت اور انسان کے حقیقی وجود سے متناسب دنیا کے تحقق کا زمینہ فراہم کرنا اور اسی طرح تمام انبیاء کی بعثت کے تمام اہداف کا تحقق بھی ایک عظیم اور بھاری ذمہ داری تھی؛ یعنی خداوند متعال کا مخاطب بھی ایک عظیم انسان تھا اور اس کے کاندھوں پر ڈالی گئی ذمہ داری بھی ایک عظیم ذمہ داری تھی؛ لہذا یہ دن انسانی تاریخ کا عظیم ترین اور بابرکت ترین دن ہے۔
عید مبعث درحقیقت انسانی تاریخ کی عید ہے؛ مبعث حقیقت میں ایسے پیغام کا پرچم بلند کئے جانے کا دن ہے جو بنی نوع انسان کےلئے بے مثال اور عظیم ہے؛ بعثت نے علم و معرفت کا پرچم بلند کیا ہے۔ دوسری طرف روز بعثت عدل، رسالت اور اعلی اخلاق کےلئے جدوجہد کا نام ہے " إِنَّمَا بُعِثْتُ لِأُتَمِّمَ مَکَارِمَ الْأَخْلَاقِ "۔
مبعث انسان کی سعادت کی بنیاد اور ہمیشہ کےلئے خیر و برکات کا سرچشمہ ہے۔ عید سعید مبعث کے دن کو منانا صرف مسلمانوں کا ہی وظیفہ نہیں بلکہ مظلوم بشریت کو چاہئےکہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ کے فرامین کا احترام اور قدردانی کرے کیونکہ انسان کی نجات ان تعلیمات میں پوشیدہ ہے۔
بعثت النبی کو اپنے فہم و درک کے مطابق سمجھنا اور انسان کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کےلئے اس روز سے فائدہ اٹھانا سب سے اہم ترین مسئلہ ہے۔ اصلی ہدف، انسان کی انفرادی زندگی میں انقلاب اور تبدیلی پیدا کرنا ہے: ارشاد باری تعالی ہے: " لَقَد مَنَّ اللَّهُ عَلَى المُؤمِنينَ إِذ بَعَثَ فيهِم رَسولًا مِن أَنفُسِهِم يَتلو عَلَيهِم آياتِهِ وَيُزَكّيهِم وَيُعَلِّمُهُمُ الكِتابَ وَالحِكمَةَ وَإِن كانوا مِن قَبلُ لَفي ضَلالٍ مُبينٍ [ آل عمران/۱۶۴]
یہ تزکیہ نفس اور کتاب و حکمت کی تعلیم درحقیقت وہی انسان کی اندرونی تبدیلی اور انقلاب ہے۔ انسان کےلئے اپنی خلقت کے حقیقی مقصد تک پہنچنے کےلئے ضروری ہےکہ اپنی انفرادی زندگی کے بارے میں بعثت انبیاء کے اہداف کی تکمیل کرے، یعنی اپنے اندر بنیادی تبدیلی پیدا کرے۔ اپنے باطن کی اصلاح کرے اور خود کو تمام برائیوں اور پستیوں اور ان تمام خواہشات سے نجات دلائے جو انسان کے اندر موجود ہیں اور دنیا کی تباہی کا باعث بن رہی ہیں۔ یہ ہدف انسان کی انفرادی زندگی سے متعلق ہے۔
انسان کا حقیقی مقصد اس اعلی اخلاق کی جانب پلٹنا ہے؛ تہذیب نفس انجام دینا اور انسان کو حکمت کی جانب لے جانا ہے؛ جہالت سے نکال کر حکیمانہ زندگی اور فہم و فراست کی جانب لے جانا ہے۔
انسان کی اجتماعی زندگی سے متعلق بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کا ہدف اجتماعی عدالت و انصاف کا تحقق ہے؛ خداوند متعال فرماتا ہے: " لَقَد أَرسَلنا رُسُلَنا بِالبَيِّناتِ وَأَنزَلنا مَعَهُمُ الكِتابَ وَالميزانَ لِيَقومَ النّاسُ بِالقِسطِ " [حدید/25]
" قسط " اور " عدل " میں ایک بنیادی فرق پایا جاتا ہے۔ " عدل " کا مفہوم عام ہے یعنی وہی اعلی اور برتر مفہوم جو انسان کی شخصی اور اجتماعی زندگی اور روزمرہ حوادث میں پایا جاتا ہے۔ عدل کا مطلب ہے صحیح طرز عمل، معتدل ہونا اور اعتدال کی حد کو پار نہ کرنا؛
لیکن " قسط " کا مطلب اسی عدالت کو اجتماعی روابط میں اجراء کرنا ہے۔ یہ وہی چیز ہے جسے ہم اجتماعی عدالت اور انصاف کا نام دیتے ہیں۔ اگرچہ انبیای الہی کا بنیادی ہدف اسی عدل کے عام مفہوم کو تحقق بخشنا تھا کیونکہ " بالعدل قامت السموات و الارض "؛ آسمان اور زمین عدل کی برکت سے ہی استوار ہیں، لیکن وہ چیز جس کی وجہ سے انسانیت کو آج تمام مشکلات کا سامنا ہے اور بشریت اس کی پیاسی ہے اور اس کے بغیر زندہ رہنا ممکن نہیں " قسط " ہے۔ قسط یعنی یہ عدل و انصاف، انسانی کی اجتماعی زندگی میں جلوہ گر ہو جائے۔ انبیاء علیھم السلام اسی مقصد کےلئے مبعوث ہوئے ہیں۔
والسلام علی عبادہ الصالحین