امام خمینی: انبیاء (ع) کے مبعوث ہونےکا ہدف اور مقصد یہ ہےکہ لوگ عادلانہ اجتماعی تعلقات کی بنیاد پر نظم و نسق قائم کریں۔
عقلی حکم اور ادیان و مذاہب کی ضرورت کے مطابق، بعثت کا ہدف اور انبیاء کا کام صرف یہ نہیں ہےکہ وہ مسائل و احکام بیان کریں، ایسا نہیں ہےکہ مسائل و احکام وحی کے ذریعہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ تک پہنچے ہوں اور رسالت مآب ؐ اور حضرت امیرالمومنین ؑ نیز دوسرے ائمہ ؑ کا کام صرف مسائل بیان کرنا ہو کہ خداوند عالم نے انہیں معین کردیا ہےکہ بغیر خیانت کے مسائل بیان کریں اور انہوں نے یہ امانت فقہا کے سپرد کردی ہو کہ جو مسائل انہوں نے انبیاء سے حاصل کئے انہیں بغیر خیانت کے لوگوں تک پہنچا دیں اور " الفقہاءُ أُمنـآءُ الرُّسُل " کے معنی یہ ہوں کہ فقہاء مسائل بیان کرنے میں انبیاء کے امین ہیں، درحقیقت انبیاء ؑ کا سب سے اہم فرض یہ ہےکہ وہ قوانین اور احکام کا اجرا کرکے ایک اجتماعی عادلانہ نظام قائم کریں کہ جس کا لازمہ یہ ہےکہ احکام بیان ہوں اور الٰہی عقائد اور تعلیمات کی اشاعت کی جائے۔ چنانچہ یہ بات اس کریمہ آیت سے مکمل طورپر واضح ہوتی ہے: وَلَقَدْ أَرْسَلْنٰا رُسُلُنٰا بِالْبَیِّناتِ وَأَنْزَلْنٰا مَعَہُمُ الْکِتابَ وَالْمِیزانَ لِیَقُومَ النـّٰاسُ بِالْقِسْط " یقینا ً ہم نے اپنے رسولوں کو روشن دلیلوں کے ساتھ مبعوث کیا اور ہم نے ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ عدالت سے کام لیں" حدید/۲۰
مجموعی طورپر انبیاء (ع) کے مبعوث ہونے کا ہدف و مقصد یہ ہےکہ لوگ عادلانہ اجتماعی تعلقات کی بنیاد پر نظم و نسق قائم کریں اور یہ کام حکومت کی تشکیل اور احکام اجرا ہونے کے ذریعے ہی ممکن ہے خواہ نبی حکومت تشکیل دینے میں کامیاب ہو جیسے رسول اکرم (ص) یا ان کی پیروی کرنے والے حکومت تشکیل دینے اور عادلانہ اجتماعی نظام قائم کرنے کی توفیق و کامیابی حاصل کریں۔
خداوند عالم خمس کے بارے میں فرماتا ہے: وَاعْلَمُوا اَنـَّمٰا غَنِمْتُمْ مِنْ شَيئٍ فَـاِنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہُ وَلِلرَّسُولِ وَلِذِی الْقُرْبیٰ ۔۔۔ "پس جان لو کہ جو کچھ تم نے مال غنیمت پایا ہو اس میں سے پانچواں حصہ خدا و پیغمبر، ان کے اقربا اور یتیم و محتاج اور ابن سبیل و راستہ میں رہ جانے والوں کےلئے ہے" انفال/۱۴۱
یا زکات کے بارے میں فرماتا ہے: خـُـذْ مِنْ أَمْوالِہِمْ صَدَقَۃ ۔۔۔ " ان کے اموال میں سے کچھ بطور صدقہ لے لو" توبہ/۱۰۳ یا خراج کے بارے میں احکامات فرماتا ہے۔
درحقیقت رسول اسلام (ص) کو صرف مسائل و احکام بیان کرنے کےلئے مبعوث نہیں فرمایا گیا تھا، بلکہ اجرا کی ذمہ داری بھی انہی کے سپرد کی گئی جس طرح ان حکام کو لوگوں میں بیان کرنے پر مامور تھے اسی طرح انہیں نافذ کرنے پر بھی مامور تھے۔ مثلا ً خمس و زکات اور خراج لےکر مسلمانوں کی مصلحتوں میں خرچ کریں۔ ملت و افراد کے درمیان عدل و انصاف پھیلائیں، حدود جاری کریں اور ملک کی سرحدوں کی حفاظت کریں اور کسی کو بھی اسلامی حکومت کے ٹیکس ہڑپنے نہ دیں۔
خداوند عالم نے پیغمبر اسلام (ص) کو جو رئیس قرار دیا اور آنحضرت ؐ کی اطاعت واجب قرار دی ہے:
أَطِیْعُوا ﷲَ وَأَطِیْعُوا الرَّسُولَ وَأُولِی الأَمْرِ مِنْکُم تو مراد یہ نہیں کہ اگر پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ، مسئلہ بیان کریں تو ہم قبول کرکے عمل کریں، احکام پر عمل کرنا درحقیقت خدا کی اطاعت ہے اور عبادتی و غیر عبادتی سب کام جو احکام سے متعلق ہیں ان میں خدا کی اطاعت ہے۔
رسول اعظم (ص) کا اتباع کرنا صرف احکام پر عمل کرنا نہیں ہے، بلکہ اس کا دوسرا مطلب ہے۔ البتہ رسول گرامی (ص) کی اطاعت ایک معنی میں خدا کی اطاعت ہے، کیونکہ خداوند عالم نے حکم دیا ہےکہ اس کے پیغمبر کی اطاعت و پیروی کریں۔ اگر رسول اکرم (ص) کہ جو معاشرہ کے رئیس اور رہبر ہیں حکم دیں اور فرمائیں کہ سب اسامہ کے لشکر کے ساتھ جا کر جنگ کریں تو کسی کو بھی مخالفت کرنے کا حق نہیں ہے، یہ خدا کا حکم نہیں ہے، بلکہ رسول ﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ کا حکم ہے۔ خداوند عالم نے حکومت اور سپہ سالاری آنحضرت (ص) کے سپرد کی اور آنحضرت ؐ نے مصلحتوں کے پیش نظر لشکر تیار کئے اور والی، حاکم اور قاضی معین کئے یا معزول فرمائے۔
ولایت فقیہ، ص۷۰
التماس دعا