سوال: آپ کی کوشش ہے کہ ایسے معاشرہ بنائیں جس کی اقدار اور اچھائیوں کی مثال ہم نے صدر اسلام میں دیکھا ہے۔ مدینہ میں پیغمبر اسلام(ص) کی حیات کے دوران اور کوفہ میں حضرت امیر(ع) کے دور میں دیکھا گیا۔ کیا آپ کے خیال میں اس دور میں جو اقدار اور اچھائیاں اُس معاشرے میں تھیں وہ اس نئی بیسویں صدی کی دُنیا میں قابل تطبیق ہیں یا نہیں؟ اور کیسے؟
امام خمینی(رح):
بسم اللہ الرحمن الرحیم
دنیا میں اقدار اور خوبیاں دو قسم کی ہیں۔ ایک قسم کی اقدار معنوی ہیں، جیسے توحید اور جہاد جو الوہیت سے مربوط ہیں اور اجتماعی عدالت کی مانند، عدالت پر مبنی حکومت اور ملتوں کے ساتھ حکومتوں کا عادلانہ برتاؤ اور امتوں میں اجتماعی عدالت کا توسعہ اور ان جیسے دیگر چیزیں جو صدر اسلام یا اسلام کے ظہور سے پہلے بھی جب انبیاء(ع) مبعوث ہوئے تھیں اور آج بھی قابل تغییر و تبدیل نہیں ہیں۔ عدالت کے معنی قابل تبدیل نہیں کہ ایک وقت صحیح ہو اور دوسرے زمانے میں غیر صحیح ہو۔ معنوی اقدار اور خوبیاں ابدی اور دائمی اقدار ہیں جو ممالک کے صنعتی ہونے سے پہلے اور بعد میں بھی تھیں اور باقی رہیں گے۔ عدالت کا ان باتوں اور حالات سے کوئی ربط نہیں۔
دوسری قسم مادی امور ہیں جو زمانے اور وقت کے تقاضا کے ساتھ ساتھ تبدیل ہوتے رہتے ہیں۔ گذشتہ دور میں کچھ اور بعد میں ترقی کر گئے، یہاں تک موجودہ مرحلہ پر پہنچے ہیں اور آئندہ مزید آگے بڑھیں گے۔
جو کچھ حکومت کا میزان، اجتماع اور سیاست سے مربوط ہیں؛ معنوی اقدار ہیں۔ صدر اسلام میں دو زمانے میں، دو مرتبہ خالص اسلام کی حکومت قائم ہوئی۔ ایک رسول اللہ(ص) کے زمانے میں اور دوسرا جب کوفہ میں علی بن ابیطالب(ع) حکومت کر رہے تھے۔ صرف یہ دو مورد تھے جہاں اقدار کی حکومت تھی؛ یعنی ایک عدل حکومت برقرار تھی اور حاکم ذرہ برابر قانون سے خلاف ورزی نہیں کرتا تھا۔ اس دو وقت میں قانون کی حکومت تھی اور شاید پھر کبھی آپ کو اس کی مانند، قانون کی حکومت کوئی سراغ اور نشانی نہ ملے۔
جب حجاز، مصر اور ایران تک حضرت امیر(ع) کی حکومت تھی اور آپ خود ہی قضات کا تعین فرماتے تھے، کسی مسئلہ میں، حضرت اور یمنی شخص جو آپ ہی کی مملکت کا باشندہ تھا، نزاع پیش آیا، چنانچہ قاضی نے حضرت سے حاضر ہونے کو کہا، جبکہ قاضی کو خود حضرت نے تقرر فرمایا تھا، حضرت محکمہ میں حاضر ہوئے، قاضی نے چاہا آپ کا احترام کریں، امام نے فرمایا: قضاوت کے دوران ایک طرف کا احترام نہ کریں، میں اور وہ دونوں آپ کے سامنے برابر ہونے چاہیئے۔ بعد میں جب قاضی نے حضرت کے خلاف فیصلہ سنایا، حضرت نے گُشادہ رو سے قبول فرمایا۔ (شرح نہج البلاغہ ابن ابی الحدید؛ ج17، ص65)
یہ وہ حکومت ہے جہاں قانون کے سامنے سب برابر ہیں۔ اس لئے کہ اسلام کا قانون، الٰہی قانون ہے اور سب اللہ تعالی کے سامنے حاضر ہیں، حاکم بھی اور محکوم بھی۔ پیغمبر بھی، امام بھی اور عوام بھی۔
اب ہماری خواہش اور آرزو ہے کہ ہماری حکومت میں بہی صدر اسلام کی حکومت کی طرح کچھ شباہت پائے اور ایسا بھی نہیں ہے کہ ہمارے پاس ایسی طاقت ہو کہ اسلامی حکومت کے تمام محتوی اور معنی کو بلا فاصلہ قائم اور جاری کریں۔ (17، آبان 1358۔ 17ذی الحجہ 1399)