انقلاب اسلامی اور انقلاب جھانی امام مھدی علیہ السلام

انقلاب اسلامی اور انقلاب جھانی امام مھدی علیہ السلام

انقلاب اسلامی کا سورج ایک ایسے وقت میں طلوع ہوا جب دنیا ظلم و جور کے سیاہ و تاریک اندھیروں کی لپیٹ میں تھی۔ جب بشریت کفر و شرک کے بھیڑیوں کے خونی پنجوں میں جکڑی ہوئی تھی اور انسانی ضمیر کے سوداگر انسانوں کے ساتھ غیرت، شعور اور بصیرت کا جہالت اور ضلالت کے ساتھ سودا کر رہے تھے۔ دنیا کے ہر کونے سے ظلم و ستم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو طاقت کے زور پر دبا دیا جاتا تھا۔ دین کو فرد کی بدبختی اور ناکامی میں دخیل اور معاشرے کا افیون قرار دے کر دین داروں پر روزگار حیات تنگ کیا جا رہا تھا اور دین سے بڑھ کے کوئی بے مایہ چیز نہیں تھی۔

انقلاب اسلامی کا سورج ایک ایسے وقت میں طلوع ہوا جب دنیا ظلم و جور کے سیاہ و تاریک اندھیروں کی لپیٹ میں تھی۔ جب بشریت کفر و شرک کے بھیڑیوں کے خونی پنجوں میں جکڑی ہوئی تھی اور انسانی ضمیر کے سوداگر انسانوں کے ساتھ غیرت، شعور اور بصیرت کا جہالت اور ضلالت کے ساتھ سودا کر رہے تھے۔ دنیا کے ہر کونے سے ظلم و ستم کے خلاف اٹھنے والی آواز کو طاقت کے زور پر دبا دیا جاتا تھا۔ دین کو فرد کی بدبختی اور ناکامی میں دخیل اور معاشرے کا افیون قرار دے کر دین داروں پر روزگار حیات تنگ کیا جا رہا تھا اور دین سے بڑھ کے کوئی بے مایہ چیز نہیں تھی۔ 
 
ایسے میں ایک مرد الٰہی آفاق عالم سے خدا کا ودیعہ بن کر نمودار ہوا، جس نے دنیا کے مستکبروں کو للکارا اور اس کے رعب و دبدبے سے مستکبروں اور طاغوتوں کی انحرافی آوازیں ان کے گلے میں دب کر رہ گئیں۔ جس نے سنت خلیل پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی زوردار ضرب سے شرقیت اور غربیت کے تمام بتوں کو توڑ ڈالا۔ لیکن ایک فرق کے ساتھ، اور وہ یہ کہ کل کے ابراھیم  نے "لعلھم یرجعون" کی مصلحت کے تحت "بت کبیر" کو چھوڑ دیا تھا لیکن عصر حاضر کے اس خلیل نے بلا کی بصیرت اور شجاعت کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی تمام تر توانائیاں بڑے بت کو توڑنے پر صرف کیں اور ایک ایسے وقت میں اسکے خلاف آواز بلند کی جب شرق و غرب کے تمام لوگ خواستہ یا نخواستہ اسکے سامنے سجدہ ریز تھے۔ اس نے پوری قاطعیت کے ساتھ اس کے خبیث چہرے کو دنیا کے سامنے بے نقاب کیا۔ 
 
اس مرد الٰہی نے اپنے فولادین ارادوں کے ساتھ اس کا قلع قمع کرنے کے لئے اپنی جدوجہد کا آغاز کیا اور اسے شیطان اکبر کا نام دیتے ہوئے اسے اس کی ابدی موت کو حقیقت سے پیوند دینے کیلئے "مرگ بر امریکہ" کا وہ عالمی نعرہ بلند کیا جو آج بھی زبان زد خاص و عام ہے، جو لسانی اور لفظی شکل سے آگے بڑھ کر عملی صورت اختیار کرچکا ہے۔ آج مشرق و مغرب سے "مردہ باد امریکہ" یا "DOWN WITH USA" کے نعرے بلند ہو رہے ہیں اور امام خمینی (رہ) کا وہ تاریخی جملہ کہ "ما امریکہ را زیر پا می گزاریم" (ہم امریکہ کو اپنے پاؤں تلے روند ڈالیں گے) تخیل و وہم کی دنیا سے نکل کر واقعیت کا روپ اختیار کر رہا ہے۔ جس کو اس وقت بہت سوں نے فقط جذباتی جملہ کہہ کر نظر انداز کر دیا اور ناممکن اور محال سمجھ کر ٹھکرا دیا تھا، آج اسکی صداقت پر شاہ ایران سے لے کر تیونس، یمن اور دوسرے بعض ممالک کے اندر امریکی نمک خواروں کا تخت سے تختہ دار سے نزدیک ہونے تک کے سارے واقعات گواہی دے رہے ہیں۔ 
 
دراصل عصر حاضر میں ایک تیسری عالمی جنگ کا آغاز ہوچکا ہے  لیکن یاد رہے کہ یہ توپ و تلوار کی جنگ نہیں ہے بلکہ یہ فکر و عقیدہ اور بقول امام خامنہ ای کے "ارادوں کی جنگ" ہے اور جو دو ارادے نبرد آزما ہیں ایک "یریدون لیطفئوا نوراللہ بافواھھم" کی صورت میں اور دوسرا "لیظھرہ علی الدین کله" کی صورت میں ہے اور اس صدی میں اس عظیم انقلاب کا ظھور کرنا یہ اللہ کے اس حتمی ارادے کا پیش خیمہ ہے۔ آج انقلاب اسلامی کی برکت سے دنیا میں دو نئے بلاک بن رہے ہیں۔ ایک مستضعفین کا ہے اور دوسرا مستکبرین کا۔ ایک طرف دنیا کے تمام نہتے مظلوم چاہے وہ جس مذہب و ملت سے ہوں شامل ہیں اور دوسری طرف دنیا کے تمام ڈکٹیٹرز اور ظالم و جابر حکمران ہیں۔ ان میں سے ایک کا اسلحہ علم و آگاہی ہے اور دوسرے کا اسلحہ مکر و فریب و دھوکہ ہے۔ ایک اپنی ظاہری طاقت پر نازاں ہے اور دوسرے وہ لوگ ہیں جن کا واحد ہتھیار وعدہ الٰہی پر حسن ظن ہے اور خدا کا وعدہ کبھی خلاف نہیں ہوسکتا "ان تنصرواللہ ینصرکم۔"
 
آج کے اس حساس دور میں امام خمینی اور امام خامنہ ای جیسی شخصیات کا موجود ہونا اور اس عظیم انقلاب کا کامیاب ہونا اللہ کے اسی ناقابل خلف وعدے کے تحقق کی دلیل ہے اور آج ہم شاہد ہیں کہ عصر حاضر کے فرعون یکے بعد دیگرے امتوں کے امڈتے ہوئے "دریائے نیل" میں غرق ہو رہے ہیں اور یہ انقلاب نائب برحق امام زمان (عج) کی قیادت میں تیزی کے ساتھ اپنی آخری منزل کی طرف بڑھ رہا ہے، جب خدا کا آخری وعدہ ضرور وقوع پذیر ہوگا اور دنیا بھر کے مسلموں اور بے کسوں کے دلوں کی آخری امید ذوالفقار حیدری کے ساتھ زمین خدا سے کفر و شرک کی کانٹے دار جھاڑیوں کو اکھاڑ پھینکے گی اور اس کی جگہ اس زرخیز مٹی پر ایمان و اسلام کی فصل لہرانے لگے گی، عقل انسانی کے شگوفے کھل کر پھول بنیں گے، ہر طرف بہار ہی بہار کا عالم ہوگا۔
بقیۃ اللہ خیر لکم ان کنتم تعلمون

 

ای میل کریں