جس دن قم میں طلاب کو مدرسہ کی چھت سے نیچے پھینک دیا گیا اور ان کو لکڑی پتھر سے مارا پیٹا گیا۔ جب یہ خبر امام ؒکو دی گئی تو بعض نے امام سے کہا کہ اجازت دیں کہ گھر کا دروازہ بند کر دیا جائے، ان ظالموں کا ارادہ یہ ہے کہ مدرسہ فیضیہ پر حملہ کے بعد آپ کے گھر پہ دھاوا بولیں گے۔ امام نے فرمایا: ’’نہیں ! بلکہ دروازہ کھلا رکھا جائے‘‘ پھر امام کی خدمت میں عرض کیا گیا کہ شاید شاہ کے کمانڈوز گھر میں گھس آئیں اور گھر کو خراب کردیں ۔ اس دفعہ امام ؒ نے سختی سے جواب دیا۔ تیسری دفعہ جب آقائے لواسانی نے تجویز دی کہ آقا اجازت دیجئے کہ میں گھر کا دروازہ بند کر دوں ۔ امام ؒ نے ان سے کہا: ’’سید میرے گھر سے نکل جاؤ! تم کہتے ہو کہ میں گھر کا دروازہ بند کر لوں ۔ جبکہ مدرسے میں میرے بچوں کو مارا پیٹا جا رہا ہے، زخمی کیا جا رہا ہے اس کے بعد میں یہاں اپنی جان بچانے کیلئے گھر کا دروازہ بھی بند کر دوں ؟ اگر تم ایسا کروگے تو میں اپنی عبا ہاتھوں میں لے کر ننگے پاؤں مدرسہ فیضیہ جاؤں گا‘‘۔