امام ؒکا یہ قطعی فیصلہ تھا کہ جس شخص کے اوپر وہ اطمینان نہیں رکھتے تھے اور وہ آپ کی نگاہ میں ظالموں اور فاسقوں میں شمار ہوتا تھا اس سے کوئی درخواست اور تقاضا نہیں کرتے تھے۔ یہ آپ کا اصول تھا۔ ایک دفعہ مجاہدین خلق کے کچھ افراد عراق میں پکڑے گئے۔ تراب حق شناس بھی اسی سلسلے میں عراق آئے ہوئے تھے اور وہ آیت اﷲ طالقانی ؒکا ایک خفیہ خط بھی امام کے نام پہ لائے تھے۔ میں ان کو امام کی خدمت میں لے گیا۔ جب وہ امام ؒکی خدمت میں پہنچے تو وہ خط بھی نکالا۔ آیت اﷲ طالقانی ؒ نے امام کو اطمینان دلانے کیلئے کہ حامل نامہ ان کی جانب سے گیا ہے، ایک یادگار واقعہ جو امام اور آقائے زنجانی کے ساتھ پیش آیا تھا، وہ بھی ان کو بتا دیا تھا تاکہ وہ تصدیق کی خاطر امام کی خدمت میں بیان کرے۔ البتہ یہ پیغام بھی میرے اور آیت اﷲ طالقانی کے درمیان ایک یادگار واقعہ تھا کہ جب وہ جیل میں تھے اور ان سے ملاقات کیلئے گیا تھا۔ آیت اﷲ طالقانی کا مقصد یہ تھا کہ امام ؒ عراق کی گورنمنٹ سے تقاضا کریں کہ وہ اس گروہ کو آزاد کر دے۔ امام ؒ نے فرمایا: ’’میں اس سلسلہ میں سوچوں گا‘‘ اگلے دن جب امام کی خدمت میں حاضر ہوا تو فرمایا: ’’میں براہ راست دخالت نہیں کرتا، کیونکہ اگر میں بعثی حکومت سے کچھ درخواست کرتا ہوں تو آیندہ کیلئے ان کا احسانمند ہو کر رہ جاؤں گا اور وہ بھی مجھ سے کوئی کام لینے کی توقع کریں گے‘‘ میں نے کچھ وضاحت کی کہ شاید مفید ہوسکے۔ لیکن امام ؒ نے فرمایا: ’’اگر اس وقت آقائے طالقانی اور آقائے زنجانی بھی یہاں بیٹھے ہوتے اور وہ دونوں مجھ سے یہ درخواست کرتے تو میں ان کی بات نہیں مانتا، کیونکہ میرا یہ اصول نہیں ہے کہ جس کو میں صحیح نہیں سمجھتا اور اس کو ظالموں اور مفسدوں میں گردانتا ہوں اس سے کسی چیز کا تقاضا کروں ۔ لیکن اگر تم خود کچھ کام کرسکتے ہو تو کوئی مانع نہیں ہے‘‘۔