اصغر میرشکاری نے اپنی یادداشت میں جو امام خمینی(رح) ویب پورٹل میں شائع ہوا ہے، سیاست اور انتخابات میں حضور کے حوالے سے، امام خمینی(رح) کے نقطہ نظر سے تجزیہ وتحلیل کئے ہے۔
اس یادداشت میں لکھا گیا ہے:
وہ (امام خمینی) عوام کو ملک ومملکت کا اصلی مالک اور حکومت کی دوڑ باگ سنبھالنے والا جانتے تھے (صحیفہ امام، ج۴، ص۴۹۴)، نیــز، وہ (امام خمینی) انقلاب کو عوامی جد وجہد کا نتیجہ شمار گردانا، اور نظام مقدس کو انہی لوگوں کی سعی وتلاش کا ثمرہ دیکھتے تھے (صحیفہ امام، ج۲۱، ص۴۰۱) اور اسی بنا پر عوام کےلئے ایک خاص حقوق کا قائل تھے جو کہ تمام ذمہ داروں اور عہدیداروں کے کندھوں پر وظیفہ عائد کیا گیا کہ وہ اس کا محافظ رہے اور اس حقوق کے حصول کی راہ میں بھرپور کوشاں رہے اور آپ رحمت اللہ علیہ ان سب پر، دقت نظر کے ساتھ نظارت ومراقبت فرماتے رہے تاکہ عوامی حقوق میں کوئی خدشہ پیش نہ آجائے۔
امام خمینی(رح) اپنی ۱۴ اسفند ۱۳۵۹ھ،ش (۵ مارچ ۱۹۸۱ء) کی تقریر میں فرمایا ہے:
سامراجی پر اسرار ہاتھوں، جو اسلامی ملتوں کے مختلف اقشار میں بعض اشخاص اور گروہوں کے ذریعے رسوخ کرچکے ہیں، سالہا سال ایک خاص پالیسی اور پروگرام انجام دے چکے ہیں اور صد افسوس کے ساتھ عملی مرحلہ تک بھی پہنچا ہے اور اس کا ناپاک ثمرات کو ملتوں کے تحویل میں دے چکے ہیں...
اس طرح ہوگیا تھا کہ سیاسی امور میں مداخلت کو شان روحانیت کے برخلاف سمجھا جاتا تھا یہاں تک کہ (کہتے تھے) فلاں آغا جو مرد سیاسی ہے وہ دیگر صنف روحانیت سے شمار نہیں ہونا چاہیے۔ یہ رویے اس لئے تھا کہ علما اور روحانی حضرات کو گوشہ نشین کریں اور انہیں اجتماع سے دور رکھا جائے، مدارس کے حجروں اور مسجدوں میں محبوس رکھنا، ان کی تیار شدہ پالیسی میں سے تھی۔
(صحیفہ امام، ج۱۴، ص۱۸۴)
افسوس کی بات یہ ہے کہ صنف روحانیت میں سے بعض نے اس غلط پروپیگنڈے کو قبول کرتے ہوئے شدت کے ساتھ اس پر پابند بھی رہے چکے ہیں!! لیکن اسلام ناب محمدی(ص) کے حقیقی دعویدار کے عنوان سے امام خمینی(رح) نے اس غلط سوچ کی طرف توجہ نہ دی اور مانا بھی نہیں یہاں تک کہ اپنے بیانات اور عملی میدان میں اس کے خلاف تمام تر سعی وکوشش کی۔ چنانچہ فرماتے تھے:
ہم کہتے ہیں کہ نہ صرف روحانیت (علما) بلکہ تمام اصناف واقشار کے لوگ، سیاست میں دخیل ہونا چاہیے۔ سیاست کسی حکومت کا ورثہ نہیں، پارلیمنٹ کا بھی نہیں، جس طرح خاص افراد کا بھی نہیں ہے۔ سیاست یعنی یہی جاری وساری امور ہے جو ایک ملک کی دوڑ باگ سنبھالنے کے حوالے پیش آتا ہے اور اس میں گزرتا ہے۔ اس لئے ملک کے سب افراد کو یہ حق حاصل ہے... (اسی بنا پر) روحانیت کو بھی یہی حق، حاصل ہے کہ وہ سیاست میں مداخلت کریں، ان پر تکلیف اور فرض ہے۔ دین اسلام، ایک سیاسی دین ہے۔ ایک ایسا دین ہے جو اس کا ہر پہلو سیاست ہے، اس کی عبادت بھی (سیاست ہے)۔
(صحیفہ امام، ج۱۰، ص۱۵)
http://www.imam-khomeini.ir/fa/n45190/