قرآن و حدیث میں جو اس دنیا کی مذمت کی گئی ہے وہ حقیقت میں اقسام اور کثرت کے اعتبار سے اس دنیا کی مذمت نہیں ہے، بلکہ اس دنیا سے محبت کرنے اور اس قلبی لگاؤ رکھنے کی مذمت ہے ۔
اس سے معلوم ہوا کہ انسان کیلئے دو دنیائیں ہیں ۔ ایک ممدوح اور ایک مذموم ۔اس دنیا میں جو چیز قابل تعریف ہے وہ یہ ہے کہ یہ دنیا تیاری،اچھائیوں ،اعلیٰ مقامات،کمالات اور ابدی سعادت حاصل کرنے کی جگہ ہے ۔ اور جب تک انسان اس دنیا میں نہ آئے ان چیزوں کا حصول نا ممکن ہے ۔
لٰہذا دنیاکسی اعتبار سے قابل مذمت نہیں ہے ۔ ہاں !جو چیز مذموم ہے وہ خود انسان کی دنیاہے ۔جس کے معنی قدرت اور طبیعت سے انسان کا دلی لگاؤ اور محبت ہےجو تمام برائیوں کا منشأ اور عملی وقلبی ( نافرمانیوں و) خطاؤں کا سر چشمہ ہے۔
امام محمد باقر(ع) سے روایت کی گئی ہے : ’’ماذئبان ضاربان فی غنم لیس لہا راع ۔۔۔‘‘
’’ کسی ایسے ریوڑ پر جس کا کوئی چرواہانہ نہ ہو دو خونخوار بھیڑ یئےایک آگے سے اور ایک پیچھے سے حملہ آورہو کر اتنی جلدی اتنانقصان نہیں پہنچاسکتے جتنا مال ومنال اورجاہ ومقام کی محبت مؤمن کے دین کو نقصان پہنچادیتی ہے ۔’’
پس معلوم ہوگیا کہ اس دنیا سے جنتی دلبستگی زیادہ ہوگی اتنے ہی انسان اور دار کرامت و رحمت کے درمیان پردے زیادہ ہوں گے اور انسان کے دل اور حق کے درمیان پڑ ے پردے اتنے ہی دبیز ہوتے جائیں گے ۔ (جہل حدیث امام خمینی (رح) ص ۱۵۵،۱۵۶)