انقلاب اسلامی ایران کی کامیابی اور اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت کے قیام کو 36 سال گذر رہے ہیں۔ اس عرصے میں ایران بہت سے تاریخی نشیب و فراز سے گذرا ہے، لیکن اس کے باوجود اس نے تیزی کے ساته مختلف شعبوں میں ترقی و پیشرفت کےزینے طے کئے ہیں۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت اور عوام انقلاب اسلامی کی کامیابی کے بعد گوناگوں مسائل و مشکلات سے دچار رہے ہیں، جو مغربی ممالک اور بین الاقوامی نظام کے دعویداروں کی جانب سے ان پر ٹهونس دئیے گئےتهے۔ ایران عالمی جنگ، امن و امان کے مسائل، اقتصادی بائیکاٹ، مالی پابندیوں، علاقے اور دنیا کی سطح پر مسلط کی جانے والی میڈیا وار و غیرہ جیسی بڑی بڑی آزمائشوں سے سرخرو ہوکر نکلا ہے۔ جو اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت اور عوام کا فخریہ تاریخی کارنامہ اور خود اعتمادی کا بے مثال نمونہ ہے۔ اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت دنیا پر حاکم دو بلاکوں کے نظام کو ٹهکراتے ہوئے انقلاب اسلامی کی بنیادوں پر قائم ہوئی تهی، اسی لئے ابتدا سے ہی ایرانی قوم کے دشمنوں کی سازشوں اور معاندانہ کاررروائیوں کا نشانہ بن گئی۔ طویل عرصے تک جاری رہنے والی مسلط کردہ جنگ اور اس کے نتیجے میں ملک اور خاص طور پر سرحدی علاقوں میں پہنچنے والے جانی و مالی نقصانات کے علاوہ اقتصادی ناکہ بندی ، ایران کے خلاف مغربی دنیا بالخصوص ان ممالک کے اہم حربے شمار ہوتے ہیں، جن کو انہوں نے ایرانی قوم کی حریت پسندی اور خودمختاری کی امنگوں کو کچلنے کے لئے آزمایا۔ امریکا نے پہلی بار 1980 ع میں تہران میں اپنے جاسوسی کے اڈے پر قبضے کے رد عمل میں اسلامی جمہوریۂ ایران کا اقتصادی بائیکاٹ کیا۔ اس کے نتیجے میں امریکا نے انقلاب کی کامیابی سے پہلے طے کئے جانے والے کئی ملین ڈالر کے ہتهیاروں کی فروخت کے معاہدوں کو منسوخ کردیا اور اسلامی جمہوریۂ ایران کے ہاتهوں اسلحہ فروخت کرنے کو غیر قانونی قراردیا۔ اسی طرح امریکا میں ایران کے کئی ارب ڈالر کے اثاثوں کو منجمد کرنے کے علاوہ ایران اور امریکا کے درمیان ہر قسم کے تجارتی لین دین کو بند کردیا گیا۔
یورپی یونین اور جاپان نے بهی امریکا کا ساته دیتے ہوئے اسلامی جمہوریۂ ایران کو فوجی ساز و سامان فروخت کرنا اور قرضے دینا اور اسی طرح ایران سے تیل خریدنا بند کردیا۔ 1980 ع سے 1988 ع تک جاری رہنے والی مسلط کردہ جنگ کے دوران بهی امریکا نے آمر صدام کی کهل کر حمایت کی اور عراقی فوج کو ہر قسم کے اسلحے سے لیس کرنے کے علاوہ اقتصادی امداد کے ذریعے عراق پر حاکم بعث پارٹی کی حکومت تقویت پہنچائی۔ اکتوبر 1987 ع میں امریکی کانگریس کے فیصلے کے مطابق امریکی مصنوعات اور سامان کی ایران کو برآمدات ممنوع قرار دی گئیں۔ اس پابندی کا اطلاق اقتصادی، ٹیکنالوجی، سائنسی، عسکری اور اسٹریٹیجکی کے وسیع شعبوں پر ہوتا تها۔ ایران پر مسلط کردہ جنگ میں عراق کی شکست کے بعد 1991 ع میں امریکا نے کویت سے عراقی قبضے کے خاتمے کے لئے عراق پر حملہ کردیا۔ عراق پر ایران کی برتری اور علاقے میں طاقت کا توازن کو بگڑنے سے روکنے کے لئے امریکی حکومت نے 1992 ع میں "ایران و عراق کے فوجی ساز وسامان کے پهیلاؤ پر پابندی" کا قانون منظور کرلیا، اس کی وجہ سے ایران کے خلاف اقتصادی پابندیوں کا دائرہ وسیع تر ہوگیا۔ ان برسوں کے دوران امریکا اور اس کی پیروی میں مغربی ممالک کی طرف سے ایران پر پابندیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ انہوں نے ہر مرتبہ کسی نہ کسی بہانے سے مختلف شعبوں میں ایران پر دباؤ بڑهانے میں کوئی دقیقہ فروگذاشت نہیں کیا۔ حالیہ برسوں میں ایران پر مزید پابندیاں عائد کرنے کے لئے ایران کے جوہری پروگرام کو نشانہ بنایا، تا کہ مختلف قسم کی پابندیوں میں جکڑ کر، اپنے تئیں ایران کی ترقی و پیشرفت کی راہ میں بڑی رکاؤٹ ڈال سکیں۔
ایرانی عوام پر یہ پابندیاں اقتصادی، سائنسی، سیاسی و دیگر شعبوں میں عائد کی گئیں۔ ان میں ایرانی تیل کی برآمدات اور ایران کے مرکزی بینک پر لگائی جانے والی پابندیاں قابل ذکر ہیں۔ مغربی ممالک کی جانب سےان نئی پابندیوں کا مقصد ایرانی معیشت کے تیل پر انحصار کو مد نظر رکهتے ہوئے اس بیہودہ تصور کے تحت لگائی گئیں کہ ان کے ذریعے ایرانی عوام کی معیشت کو معطل کرکے اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت کو گهٹنے ٹیکنے پر مجبور کرسکیں گے۔ مغرب کی ظالمانہ پابندیوں کے عوام کی زندگی کے اہم شعبوں بالخصوص دواؤں، غذائی اشیا اور صحت و سلامتی کے شعبے پر مضر اثرات مرتب ہوئے، تاہم یہ مغرب کے بے جا مطالبات پر مبنی مذموم عزائم بالخصوص جوہری پروگرام کی منسوخی کے مطالبے کے سامنے ایرانی قوم کی مزاحمت کے جذبے کو کم نہ کرسکے اور ان کے پائے استقامت میں ذرہ برابر لغزش پیدا نہ ہوسکی۔ بلکہ ان کی وجہ سے ایران کو اس بات کا موقع ملا کہ بے پناہ ملکی ذرائع اور صلاحیتوں پر بهروسا کرتے ہوئے ملک کی ترقی و پیشرفت کے لئے ایک جامع پروگرام مرتب کرے، جس کی بنیاد انسانی طاقت و صلاحیت، علمی استعداد اور قدرتی ذرائع پر استوار ہو۔ معتبر عالمی اداروں کے اعداد و شمار کے مطابق ایران دنیا کی 18 ویں بڑی معیشت کا مالک ہے۔ اور تیل کی پیداوار کے لحاظ سے ایران دنیا کا چوتها ملک ہے، جب کہ گیس کے ذخائر کے اعتبار سے ایران دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے۔ اسی طرح سیاحت کے نقطۂ نگاہ سے ایران دنیا کا دسواں ملک شمار ہوتا ہے اور موحولیاتی سیاحت (اکو ٹورزم) کے لحاظ سے دنیا میں پانچویں پوزیشن کا حامل ہے۔ اس ادارے کے اعداد و شمار کی رو سے صنعتوں کی شرح کے اعتبار سے ایران مشرق وسطی اور شمالی افریقہ کے ممالک کے درمیان پہلے مقام پر فائز ہے۔ تیل اور گیس کے علاوہ دیگر قسم کی معدنیات کے شعبوں میں بهی ایران کو دنیا میں اعلی مقام حاصل ہے، چنانچہ قلعی اور کوبالٹ کی پیداوار کے لحاظ سے بالترتیب دنیا کا چوتها اور دسواں بڑا ملک شمار ہوتا ہے۔ اسی طرح ایلومینئم، تانبا اور میکانیز کے ذخائر کے اعتبار سے ایران کو دنیا میں برتر مقام حاصل ہے۔ زراعت کے شعبے میں بهی ایران نے پیشرفت کی ہے، اس کا ثبوت یہ ہے کہ زرعی پیداوار کے تنوّع کے لحاظ سے یہ دنیا کا چوتها ملک ہے۔
2007 ع میں قائد انقلاب اسلامی ایران آیت اللہ العظمی خامنہ ای نے "استقامتی معیشت کا پروگرام پیش کرتے ہوئے ملکی ذرائع اور عوامی صلاحیتوں پر بهروسا کرنے پر زور دیا تا کہ ملکی اقتصاد پر دشمنوں کے دباؤ کا مقابلہ کیا جاسکے، بے روزگاری کو بڑهنے سے روکا جاسکے اور قومی سطح پر ترقی و پیشرفت کے ساته ساته قومی فلاح و بہبود کی جانب گامزن ہوا جاسکے۔ انہوں نے تینوں حکومتی اداروں کے سربراہان اور مصلحت نظام کونسل کے سربراہ کو "استقامتی معیشت" کے مجموعی رہنما اصولوں سے آگاہ کیا، جن میں ملکی ذرائع اور صلاحیتوں پر اعتماد کو بنیادی اور اہم حیثیت دی گئی تهی۔ "استقامتی معیشت" کا پروگرام ایسے حالات میں پیش کیا گیا کہ عالمی پابندیاں ایران کے قومی مفادات کو شدت سے نقصان پہنچانے کا باعث بن رہی تهیں۔ اس پروگرام کا مطمح نظر یہ ہے کہ ایرانی اقتصاد ایسی اصولی بنیادوں پر استوار ہو، جن کی بنا پر غیر ملکی پابندیوں پر غلبہ پانے کے علاوہ ان پابندیوں کو ترقی وپیشرفت کے مواقع میں تبدیل کیا جاسکے۔ "استقامتی معیشت" اسلامی جمہوریۂ ایران کی حکومت اور عوام کی نرم طاقت کے عنوان سے اب تک ملک کو عالمی پابندیوں کی سخت گرفت سے نجات دلانے میں کامیاب رہی ہے۔ چنانچہ تمامتر مشکلات و سختیوں اور رکاؤٹوں کے باوجود آج ایران ترقی و پیشرفت کی شاہراہ پر گامزن ہے۔