امام خمینی(رہ) نے عدل اور عدالت کو وسیع نظر سے دیکها اور اس پر متعدد زاویوں سے بحث وگفتگو فرمائی ہے۔ ہم ذیل کی سطروں میں آپ کے گرانبہا علمی سرمایہ سے استفادہ کرتے ہوئے بعض نکات کی جانب اشارہ کریں گے:
عدالت، اعتدال اور حد وسط کے معنی میں
فضائل اخلاقی کی بحث میں، ارسطو نے اپنی کتاب میں حد وسط کی بطور مفصل تشریح بیان کی ہے اور ہر نیک صفت کو فضیلت کے لحاظ سے دو رذائل کے درمیان بطور حد وسط، افراط اور تفریط کے درمیان، بیان کیا ہے۔ ان کے بعد بهی متعدد دانشوروں نے اس امر کی جانب خاص توجہ دی ہے۔ اگر چہ حد وسط بہت سارے نیک اخلاقی صفات میں معنی ومفہوم سے عاری ہوتا ہے لیکن چونکہ عدل اور عدالت بذات خود کسی فرد یا معاشرے میں ایک طرح سے اعتدال اور میزان سے تعبیر ہوتا ہے۔ افراط اور تفریط {تبعیض، ظلم، زیادہ خواہی اور اپنے حقوق کی پائمالی} سے دوری کرتے ہوئے اسے اعتدال کی محوریت پر مورد بحث قرار دینا صحیح معلوم پڑتا ہے۔ امام خمینی(رہ) نے بهی اس موضوع پر دقیق بحث کی اور اسے خاص توجہ دی ہے اور آپ نے عدالت کو افراط وتفریط کے درمیان حد وسط قرار دیا ہے۔ عدالت کی تعریف ان الفاظ میں کی جا سکتی ہے: عدالت یعنی افراط اور تفریط کے درمیان حد وسط اور یہ اخلاقی فضائل میں سرفہرست ہے(1)۔
ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: عدالت افراط وتفریط اور غلو و تقصیر کے درمیان حد وسط کا دوسرا نام ہے(2)۔
لیکن اس بات پر دلیل کہ فریضہ عادلہ، علم اخلاق سے مربوط ہے؛ فریضہ کی توصیف عادلہ کے ذریعہ بیان ہوئی ہے کیونکہ حُسن خُلق، جو کہ علم اخلاق میں بیان ہوا ہے، افراط اور تفریط سے باہر نکلنے کا نام ہے اور افراط اور تفریط دونوں مذموم ہیں اور عدالت جو کہ ان دونوں کے درمیان حد وسط قرار پاتی ہے، مستحسن اور ممدوح ہے۔ بطور مثال شجاعت جو کہ اخلاق حسنہ کی ایک بارز صفت ہے جو افراط {جیسے خوف وہراس کے موقع پر نہ ڈرنا} اور تفریط {جیسے بزدلی کہ جہاں ڈرنے کا موقع ومحل نہ ہو وہاں بهی خوف وہراس پایا جائے} کے درمیان حد وسط ہے۔ پس نتیجہ نکلتا ہے کہ فریضہ کا صفت عادلہ سے متصل ہونا اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ علم اخلاق پر منطبق ہے(3)۔
اس بنا پر چونکہ عدالت دیگر فضائل کی نسبت حد وسط میں قرار پاتی ہے، تمام فضائل کے درمیان اعتدال قائم کرتی ہے۔ یعنی تمام تر فضائل کو عدالت جیسی فضیلت ہی با فضیلت بناتی ہے۔ لہذا عدل اور عدالت ایک میزان اور مقیاس شمار ہوتے ہیں۔ ایسا ملاک اور معیار جو علل کے طول میں قرار پاتا اور تمام تر اوامر ونواہی اسی پر متوقف اور منحصر ہوتے ہیں۔ حقوق، فقہ، سیاست، اقتصاد اور اخلاق نیز عدالت میں ایک اصل ایسی پائی جاتی ہے جس کے مطابق اوامر ونواہی معین ہوتے ہیں اور اس کے بعد انہیں عملی جامہ پہنایا جاتا ہے اور اسی عدل وعدالت کی بنا پر قانون شکن افراد کا دندان شکن جواب دیا جاتا ہے۔
[1] شرح حدیث جنود عقل و جهل، ص147.
[۲] ایضاً، ص150؛ ایضاً، ص24.
[۳] شرح چهل حدیث، ص 391.
ماخذ: امام خمینی پورٹل