دو بہنوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں شادی حرام ہونے کا فلسفه کیا ہے؟

دو بہنوں کے ساتھ ایک ہی وقت میں شادی حرام ہونے کا فلسفه کیا ہے؟

امام علی علیه السلام فرماتے ہیں: ''جس چیز کو نهیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں ''[2] اسی لئے اولیائے خدا نے لوگوں کی سمجھ کے مطابق بعض احکام کے فلسفه اور سبب کی طرف اشاره کیا ہے۔

اسلام کی شریعت مقدسہ میں ایک وقت میں دو بهنوں سے شادی کرنا جائز نهیں ہے۔ یعنی اگر کوئی مرد کسی عورت سے عقد (نکاح) کرے تو جب تک وه عورت اس کے عقد میں ہے وه شخص بیوی کی بهن سے شادی نهیں کر سکتا، عقد چاہے دائمی ہو یا موقت (متعہ)، بلکه طلاق کے بعد بهی عده کے ختم ہونے تک (جبکه عده رجعی ہو) تو اس کی بهن سے شادی نهیں کرسکتا ، لیکن جب اپنی بیوی کو طلاق دے دے یا وه دنیا سے گزر جائے اور عده ختم ہو جائے تو اس بیوی کی بهن سے شادی کرسکتا ہے۔[1]

اس نکته کی طرف توجه ضروری ہے که اگر چه یه بات اپنی جگه ثابت ہوچکی ہے کہ احکام الٰهی مصلحت و مفسده کی بنیاد پر وضع کئے گئے ہیں لیکن ان مصالح و مفاسد کا جزئیات اور مصادیق سے کشف کرنا بهت مشکل ہے، اس لئے که:

ایک: مختلف علمی میدانوں میں وسیع امکانات کی ضرورت ہے۔

دوسرے: انسان علم و صنعت کے لحاظ سے جتنا بهی ترقی کرلے پهر بهی اس کی معلومات مجهولات کے مقابله میں سمندر کے سامنے ایک قطره کے مانند ہے :''تمهیں تهوڑے سے علم کے سوا ﮐﭽﮭ اور عطا نهیں کیا گیا ہے ''(سورهٔ اسراء ، آیت 85)

اولیائے دین خدا کی جانب سے سارے احکام کا فلسفه بیان نه کرنے کی وجه شاید یه ہو که وه انسان که جس کے لئے ابهی تک سارے علمی حقائق کشف نهیں ہوئے ہیں اسے احکام کے تمام راز بتانا ایک معما کے مانند ہے جو بعض اور سننے والوں کے لئے نفرت کا سبب بن سکتا ہے۔

امام علی علیه السلام فرماتے ہیں: ''جس چیز کو نهیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ہیں ''[2] اسی لئے اولیائے خدا نے لوگوں کی سمجه کے مطابق بعض احکام کے فلسفه اور سبب کی طرف اشاره کیا ہے۔

جبکه دین و شریعت کا مقصد انسانوں کو علمی و عملی خوبیوں سے آراسته کر کے فکری وعملی برائیوں سے دور کرنا ہے اور یه مقصد شریعت پر عمل پیرا ره کر ہی حاصل ہو سکتا ہے چاہے لوگ احکام کا فلسفه اور اسباب سے بے خبر کیوں نه ہوں۔

بالکل ایسے ہی جیسے ایک بیمار کو ڈاکٹر کے حکم پر عمل کرکے شفا حاصل ہوتی ہے چاہے وه دوا اور ڈاکٹر کے حکم کے فلسفه کو نهیں جانتا۔

اس کے علاوه مؤمنین کو چونکه یه اطمینان و یقین ہے که یه دینی احکام ان حضرات کی جانب سے صادر ہوتے ہیں جن کے علم و دانش میں خطا کی گنجائش نهیں ہے، لهٰذا انهیں ان احکام کے مفید اور موثر ہونے کا بهی یقین ہے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 [1] توضیح المسائل مراجع ، ج2، ص2390و2391۔

[2] ''الناس اعداء ما جهلو ''، گزیده میزان الحکمة ، ج1، ص 214

شفقنا اردو

ای میل کریں