جہاد النکاح کا کیا حکم ہے؟

جہاد النکاح کا کیا حکم ہے؟

جہاد النکاح کا کیا حکم ہے؟ کیا انسان کی عقل یہ قبول کرتی ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں، بہن اور بیٹی کے ساتھ ازدواج کرے؟

مشرق وسطی کا علاقہ، ادیان آسمانی کے مرکز کے عنوان سے حالیہ برسوں کے دوران عظیم سیاسی تبدیلیوں سے دوچار ہوا ہے۔ اس علاقہ کے لوگوں کے ادیان آسمانی سے دیرینہ رابطہ اور بعض ملکوں میں تفرقہ اور اختلاف پیدا کرنے والے پروپیگنڈے کی وجہ سے ان تبدیلیوں سے مذہبی اختلافات کی مہک آنے لگی ہے۔
بعض افراد، جو سالہا سال تک قرآن مجید کے مطابق جایز نکاح موقت (متعہ) [1]، جو صیغہ شرعی، معین مدت، عدت اور زن و شوہر کے دوسرے احکام پر مشتمل ہے، پر کسی دلیل کے بغیر اعتراض کرتے تهے آج وہ، ایک بڑے مغالطہ سے دوچار ہو کر ایک ایسے نکاح اور ازدواج کو جائز جاننے لگے ہیں جو حقیقت میں زنا ہے!
کہا جاتا ہے کہ انهوں نے جنگی جوانوں کے جذبات کو تحفظ بخشنے کے لئے " جہاد النکاح " کے عنوان سے ایک ایسے نکاح کے جائز ہونے کا فتویٰ دیا ہے جس کے مطابق بعض عورتیں، جنگی جوانوں کے پاس جاکر، جنسی لحاظ سے ان کی خواہشات کو پورا کرسکتی ہیں! اس قسم کے مطالب اور واقعات کو دنیا کے ذرایع ابلاغ میں پایا جاسکتا ہے۔ لیکن یہ امر قابل باور نہیں ہے کہ اسے تمام اہل سنت اور تمام جنگی جوان قبول کرتے ہوں!
اس بناء پر" جہاد النکاح" ایک ایسی اصطلاح ہے، جو گزشتہ چند برسوں کے حوادث کے دوران، مشرق وسطی کے علاقہ میں زبانوں پر جاری ہونے لگی ہے اور اس کے مطابق، کہا جاتا ہے کہ بعض مسلمان لڑکیاں اور وعورتیں " جہاد النکاح" کے نام سے جہاد کی امید لے کر میدان کارزار کی طرف روانہ ہوتی ہیں اور ایک مختصر مدت کے دوران کئی افراد کے ساته ہم بستری کا فعل انجام دیتی ہیں!
بعض افراد نے اس عجیب فتویٰ کی توجیہ میں ایک ایسی حدیث سے تمسک کیا ہے جو صحیح بخاری میں موجود ہے۔ لیکن قابل بیان ہے کہ ان کا یہ استدلال ہرگز صحیح نہیں ہے۔
صحیح بخاری میں عبداللہ بن مسعود سے نقل کیا گیا ہے کہ:" ہم پیغمبر اکرم (ص) کے ہمراہ جہاد پر گئے تهے، جبکہ ہماری بیویاں ہمارے ساته نہیں تهیں۔ میں نے کہا: یارسول اللہ! کیا ہم اپنے آپ کو آختہ کریں (تاکہ شہوانی طغیان سے محفوظ رہیں)؟ آنحضرت(ص) نے فرمایا: نہیں، اس کے بعد ہمیں اجازت دیدی کہ (بعنوان مہر ) ایک لباس اور کپڑے کے مقابلے میں عورتوں کے ساته ازدواج کریں۔[2]
جیسا کہ ظاہر ہے، یہ روایت، متعہ کے جائز ہونے کی دلیل ہے۔[3] اور ہرگز" جہاد النکاح" یعنی مہر اور عدہ کی رعایت کئے بغیر متعدد ازدواج کے معنی میں نہیں ہے۔
اس روایت میں پیغمبر اکرم[ص] نے مجاہدین کو اپنے آپ کو آختہ کرنے کی اجازت نہیں دی ہے، بلکہ میدان جنگ میں ازدواج موقت کرنے کی اجازت دی ہے اور وہ بهی کچه شرائط کے تحت قابل قبول ہے اور اس روایت میں ان شرائط کی طرف اشارہ نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ یہ موضوع مسلمانوں کے درمیان مسل٘م اور قابل قبول تها اور وہ بخوبی جانتے تهےکہ ازدواج کے اپنے خاص شرائط ہیں اور بنیادی طور پر ازدواج اور" زنـا" جیسے گناہ کبیرہ کے درمیان فرق بهی یہی شرائط ہیں۔
پس، اس روایت میں ازدواج کے شرائط بیان نہ کرنے کے پیش نظر، اس طرح استدلال نہیں کیا جاسکتا ہے کہ پیغمبر اسلام[ص] نے جنگ کے دوران دین خدا کی حفاظت میں لڑنے والے مجاہدین کے لئے ایک ایسے نکاح کی اجازت دیدی ہے جس میں وہ شرائط ازدواج نہ ہوں، جو دین اسلام میں بیان کئے گئے ہیں اور خدا نخواستہ ایک عورت اور جوان لڑکی اس بہانہ سے ایک ہی دن میں کئی بار مختلف مردوں کے ساته ہم بستری کا فعل انجام دے!
اس کے علاوہ اس روایت میں، مجاہدین کے ساته عورتوں کی ازدواج کو مہر کی ایک مقدار کے عوض میں، جہاد کے عنوان سے ذکر کیا گیا ہے اور اس بنا پر لفظ "نکاح" کے ساته" جہاد" کا اضافہ کرنا، ایک قسم کی فریب کاری ہے۔
البتہ محارم کے ساته ازدواج کرنا، تمام اسلامی فرقوں میں حرام اور ناجائز ہے، اگر چہ ہم عجیب[4] و غریب فتوے سنتے ہیں لیکن ابهی تک ہم نے ایسا کوئی فتویٰ نہیں سنا ہے جو محارم کے ساته جنسی تعلقات قائم کرنے کو جائز جانتا ہو۔

 


[1] ملاحطہ هو:-«جواز ازدواج موقت»، سؤال 844؛ «ازدواج موقت (متعه) و شرایط آن»، سؤال 574.

[2]-«قال عبدالله: کُنَّا نَغْزُو مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَیْهِ وَسَلَّمَ، وَلَیْسَ لَنَا شَیْءٌ، فَقُلْنَا: أَلاَ نَسْتَخْصِی؟ "فَنَهَانَا عَنْ ذَلِکَ، ثُمَّ رَخَّصَ لَنَا أَنْ نَنْکِحَ المَرْأَةَ بِالثَّوْبِ"، ثُمَّ قَرَأَ عَلَیْنَا: {یَا أَیُّهَا الَّذِینَ آمَنُوا لاَ تُحَرِّمُوا طَیِّبَاتِ مَا أَحَلَّ اللَّهُ لَکُمْ، وَلاَ تَعْتَدُوا إِنَّ اللَّهَ لاَ یُحِبُّ المُعْتَدِینَ}»؛ بخاری، محمد بن اسماعیل، الجامع المسند الصحیح المختصر من أمور رسول الله(ص) و سننه و أیامه(صحیح بخاری)، محقق: الناصر، محمد زهیر بن ناصر، ج 7، ص 4، بیروت، دار طوق النجاة، چاپ اول، 1422ق.

[3]۔  بعض اہل سنت نے  اس روایت کو متعہ کے جائز هونے کی دلیل قرار دی ہے۔ ملاحظہ هو: بیهقی، احمد بن حسین، السنن الکبری، محقق: عطا، محمد عبد القادر، ج 7 ص 201، بیروت، دار الکتب العلمیة، طبع سوم، 1424ق.

[4]- رضا کبیر کے مانند کہ، اس سے آگاہی حاصل کرنے کے لئے ملاحظہ هو: «رضاع کبیر از دیدگاه اهل سنت»، سؤال 26586.

 

اسلام کوئست نت

ای میل کریں