سوال: اگر ائمہ جماعت کے مابین بحث و تکرار ہوجائے تو ان کی اقتدا جائز ہے؟
جواب: اگر ائمہ جماعت کے مابین بحث و تکرار ہوجائے تو بہتر احتیاط یہ ہے کہ ان سب کی اقتداء نہ کی جائے لیکن اگر ان میں سے ہر کوئی یہ چاہے کہ دوسرے کو نماز جماعت کے لئے آگے کرے اور اس بارے میں بحث و تکرار کریں، مثلاً میں سے ہر ایک دوسرے سے کہے: آپ آگے ہوں، تو ایسی صورت میں مامومین جسے ترجیح دیں اس کی اقتداء ہونا چاہئے اور اگر مامومین مں اختلاف ہوجائے یا کسی کو بھی آگے نہ کریں تو جو شخص فقیہ جامع الشرائط ہو اسے آگے ہوجانا چاہئے اور اگر ایسا کوئی فقیہ نہ ہو یا متعدد ہوں جو جس کی قرات بہتر ہو اسے آگے ہوجانا چاہئے اور اگر ایسا بھی نہ ہو تو جو احکام نماز میں فقیہ تر ہو وہ آگے ہو اور اگر ایسا بھی نہ ہو تو جو دوسرے سے سن میں زیادہ ہو وہ آگے ہو البتّہ مسجد میں امام راتب امامت کے لئے ترجیح رکھتا ہے اگرچہ کوئی دوسرا اس سے افضل ہو لیکن بہتر یہ ہے کہ وہ افضل کو آگے کرے اور اگر کسی کے گھر میں نماز پڑھنے کی اجازت ہو تو اس گھر میں صاحب خانہ امامت کے لئے ترجیح رکھتا ہے اور بہتر یہ ہے کہ افضل کو آگے کیا جائے۔ نیز ہاشمی سادات اگر صفات میں دوسروں کے مساوی ہوں تو امامت کے لئے ان پر اولویّت رکھتے ہیں۔ (توجّہ رہے کہ) اس مسئلے میں جو ترجیحات بیان کی گئی ہیں وہ فضیلت اور مستحب ہونے کا درجہ رکھتی ہیں نہ کہ لازم و واجب ہونے کا یہاں تک کہ امام جماعت راتب کی امامت کی ترجیح بھی لازمی نہیں ہے لہٰذ ا اگر کوئی شخص امام راتب کی جگہ خود امامت کرانا چاہے تو وہ امام راتب کی نسبت تمام پہلوؤں میں کم تر ہی کیوں نہ ہو،تو ایسا کرنا حرام نہیں ہے لیکن امام راتب کے مزاحم ہونا برا ہے بلکہ خلاف مردّت بھی ہے۔ اگر چہ مزاحم ہونے والا شخص امام راتب سے ہر لحاظ سے افضل ہی کیوں نہ ہو۔
تحریر الوسیلہ، ج 1، ص 305