سوال: کس طرح بولنا مبطل نماز ہے؟
جواب: بولنا، اگرچہ دو مہمل حروف ہی ہوں۔ یعنی دو حرف سے مرکب ایک مہمل لفظ کو اس کی نوع یا صنف میں استعمال کرنا۔ بناء بر اقویٰ ایسا کرنا مبطل نماز ہے اور بناء بر احتیاط اگر اس سے نوع یا صنف کا ارادہ نہ بھی کرے تب بھی نمازباطل ہو جاتی ہے اور اسی طرح وہ ایک حرف ہے جسے کسی معنی میں استعمال کیا گیا ہے مثلا’’ ب‘‘ کو بعض اسماء کے اول سے کنایہ قرار دینا اور اس کے ساتھ سمجھانے کا قصد بھی ہو، بلکہ اس کا نماز کو باطل کرنا قوت سے خالی نہیں ہے۔ پس جو حرف معنی ادا کرتا ہو وہ بطور کلی، اگر چہ کسی معنی کے لئے وضع نہ کیاگیا ہو اگر حکایت کی نیت سے کہا جائے تو اس کا مبطل نماز ہونا قوت سے خالی نہیں ہے۔ جیساکہ کسی معنی کے لئے وضع کئے گئے لفظ کو قصد حکایت کے بغیر زبان پر لانا اور حالانکہ وہ فقط ایک حرف ہو تو بناء بر اقویٰ وہ نماز کو باطل نہیں کرتا اور اگر وہ لفظ دو حرفوں یا زیادہ سے مل کر بناہوا ہو تو پھر اگر نماز کا نام محو ہونے کی حد تک نہ پہنچا ہوا ہو تو بناء بر احتیاط وہ مبطل نماز ہے اور اگر اس حد تک پہنچا ہواہو تو پھر اس میں شک نہیں کہ وہ نماز کو باطل کردیتا ہے اگر چہ اسے سہوکی بناء پر بھی زبان پر لاگیا ہو۔ لیکن اگر اس صورت کے علاوہ سہواً ادا کیا جائے تو پھر نماز کوباطل نہیں کرتا۔ جیساکہ سلام کا جواب دینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ بلکہ واجب ہے اور اگر سلام کا جواب نہ دے اور قرائت وغیرہ میں مشغول ہو جائے تو نماز باطل نہیں ہوگی۔ چہ جائیکہ مذکورہ مقدار تک خاموش رہے۔ لیکن اسے ایک واجب ترک کرنے کا گناہ ہوگا۔
تحریر الوسیلہ، ج1، ص 205