استعماری حکومتوں کے خاتمہ کے لئے جمہوری اسلامی کے بانی (امام خمینی (رح) کی حکمت عملی کیا تھی؟
جواب: ایک سیاسی نظام کے قیام کی خاطر امام خمینی (رح) کی مزاحمتی حکمت عملی، بنیادی طور پر دو عمدہ محور پر قائم تھی: فکری تحریک اور سیاسی تحریک جن میں سے ترتیب کے اعتبار سے فکری تحریک، سیاسی و عملی تحریک پر مقدم ہے جسے امام (رح) نے "اندرونی تبدیلی"، "بیداری" کے نام سے یاد کیا ہے۔ امام (رح) مزاحمتی مراحل کی ترتیب کو مد نظر رکھتے ہوئے سیاسی "تعلیم و تربیت" کو سیاسی تحریک کی بنیاد اور مزاحمتی افراد کا سب سے پہلا فریضہ "تبلیغ و تعلیم" سمجھتے ہیں۔ امام (رح) اس سلسلہ میں فرماتے ہیں: ہمارا فریضہ یہ ہے کہ ابھی سے ہم ایک اسلامی حکومت کی بنیاد ڈالنے کی کوشش کریں، تبلیغ کریں، تعلیمات دیں، اپنے ہم فکر تیار کریں، ایک نشریاتی اور فکری موج پیدا کریں تا کہ اس کے نتیجہ میں ایک سماجی تحریک پیدا ہو اور آہستہ آہستہ آگاہ، ذمہ دار اور دیندار افراد تشکیل شدہ اسلامی تحریک قائم کریں اور اسلامی حکومت تشکیل دیں۔ تبلیغات اور تعلیمات ہماری دو اہم و بنیادی سرگرمیاں ہیں۔ ( ولایت فقیہ، ص۱۲۸)۔
امام خمینی (رح) کی فکر کے مطابق معاشروں میں تبدیلی ایجاد کرنا اور استعمار، استبداد و ظلم سے انہیں نجات دلانا ایسا موضوع نہیں کہ جو ایک قائم و دائم فکری بنیاد کے بغیر ممکن ہو سکے کیونکہ امام (رح) موجودہ حالت کو بہت سے اسباب جیسے مسلمانوں کے اعتقادی و فکری زوال اور استعماری طاقتوں و استبدادی حکومتوں کی سلطنت سمجھتے ہیں جو امت مسلمہ کی حقیقت کو مٹانے اور ان کی سرزمین میں موجودہ ذخائر کو غارت کرنے کے لئے قدم اٹھا رہیں ہیں۔ موجودہ حالت سے نجات حاصل کرنا اور مطلوبہ حالت تک پہونچنا صرف زوال و انحطاط کی جڑوں کو اکھاڑ پھینکنے سے ہی ممکن ہے کہ یہ امر تمام اقوام کو ایک معین و جامع حکمت عملی کے تحت تیار کرنے کی ضرورت کو واضح کرتا ہے۔ امام (رح) کی نظر میں اجتماعی تحریکیں ایک منظم و جدید فکری نظام کے بغیر کامیابی حاصل نہیں کر سکتیں جو یکساں اقدار، اعتقادات اور اجتماعی رفتار پیدا کرے۔ کیونکہ مزاحمتی ارادہ کو تقویت پہونچانا اور اتحاد قائم رکھنا تحریکوں کی کامیابی میں دو عمدہ اسباب شمار ہوتے ہیں اور یہ اسباب کافی حد تک اعتقادی۔ اقداری نظام سے وابستہ ہیں۔ امام خمینی (رح) نے موجودہ خلاء کو دیکھتے ہوئے اسے بھرنے اور اس کی تلافی کے لئے " حکومت اسلامی" کا نظریہ پیش کیا جس کی بنیاد سیاسی و انقلابی اسلام تھی اور وہ تین بنیادی مفہوم " استقلال"، " آزادی" اور " اسلامی جمہوریت" سے تشکیل پایا تھا۔ دوسری جانب سے مشترکہ اعتقادات اور اقدار میں فکری نظام کی تاثیر اس وقت پیشینگوئی کے قابل ہے جب فکری نظام اقوام کے درمیان اپنے مناسب مقام کو بخوبی پا لے اور عمومی افکار کو ایک حد تک تحت تاثیر قرار دے۔ کیونکہ ہم فکری کہ جس کے نتیجہ میں اقوام کے درمیان اتحاد و وحدت ایجاد ہوتی ہے اور یہ اتحاد اسی وقت پیدا ہوگا جب پہلی بات یہ ہے کہ لازمی سطح پر ایک فکری و ذہنی اتحاد قائم ہو دوسرے یہ کہ آپسی سماجی تعلقات مضبوطی اختیار کریں، تیسرے یہ کہ اسلام کے عمومی منافع بھی موجود ہوں۔ یہ شرائط معاشرے کی سطح پر اس وقت فراہم ہوں گے جب " وسیع و عریض" مرحلہ میں بخوبی انجام پائے کیونکہ امام (رح) کے الفاظ کے مطابق "تبلیغات و تعلیمات" کے ذریعہ سے ہی لازمی نتائج تک پہونچا جا سکتا ہے۔ وسیع سطح کی تکمیل میں اہم ترین مؤثر اسباب و عناصر، انسانی سرگرم تنظیمیں نیز اجتماعی میدانوں میں مناسب منجملہ ذرائع، پیغامات بھیجنا ہے کہ جن کا مجموعہ ایک موثر تبلیغی و تعلیمی چینل ہے۔ اس تعلیمی۔ تبلیغی چینل میں دو بنیادی اسباب زیادہ قابل توجہ ہیں: انسانی سرگرم انجمنیں اور تعلیمی۔ تبلیغی مراکز۔ امام (رح) فرماتے ہیں: ہم سب مسلمانوں،اسلامی علماء، اسلامی دانشوروں اور اسلامی مؤلفین و مقررین کا فریضہ ہے۔ ۔ ۔ کہ اسلامی ممالک کو خبردار کریں کہ ہم خود مستغنی کلچر کے مالک ہیں۔ ۔ ۔ ۔ مسلمانوں کو اپنے آپ کو پانا چاہئے یعنی انہیں معلوم ہونا چاہئے کہ وہ ایک ثقافت و ملک کے مالک ہیں۔ ۔ ۔ ( صحیفۂ امام، جلد۱۲، ص۳۲۰)
امام خمینی (رح) فکری اور اجتماعی پہلو میں دینی سماج کے کردار کو مد نظر رکھتے ہوئے دینی رسومات کو فکری امور میں صرف تعلیم و تعلیمی میدان میں مورد تشویق قرار نہیں دیتے بلکہ اس سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اس اتحاد کے ذریعہ سماجی کردار اور جدیدسماجی تعلقات نیز مسلمانوں کو اپنی انسانی، ارادی قوت اور قدرت کے سلسلہ میں آگہی حاصل کرنا ہے۔ اسی وجہ سے امام (رح) نے " یوم قدس" اور "ہفتۂ وحدت" کو اسلامی دنیا کے اتحاد کے عنوان سے مورد حمایت قرار دیا ہے کہ جس میں انقلاب کی حمایت اور استعمار کے خلاف پیغام بھی موجود ہے۔