امام صادق علیہ السلام اور ہمارا علمی مقام

پروردگار عالم نے بشریت کی ہدایت کے لئے اپنے خاص بندوں کو انسانوں کے درمیان بھیجا، تاکہ وہ ان سے استفادہ حاصل کریں

ID: 64742 | Date: 2020/06/10

امام صادق علیہ السلام اور ہمارا علمی مقام


 


تحریر: مظفر حسین کرمانی


 


پروردگار عالم نے بشریت کی ہدایت کے لئے اپنے خاص بندوں کو انسانوں کے درمیان بھیجا، تاکہ وہ ان سے استفادہ حاصل کریں اور اپنی تمام مشکلات و مسائل کو حل کریں۔ مگر افسوس کہ بشریت نے ان شخصیات عالیہ سے نہ صرف یہ کہ استفادہ نہیں کیا بلکہ اکثریت نے پہچانا ہی نہیں کہ ان کا مقام و مرتبہ کیا یے۔ اسی نور ہدایت کے چراغوں میں سے ایک چراغ امام جعفر صادق علیہ السلام کی ذات مبارکہ ہے، جنہوں نے علوم کو اتنی وضاحت کے ساتھ پیش کیا کہ آج بھی تشنگان علم ان کے دریائے علم سے سیراب ہو رہے ہیں۔ یوں نہیں کہ امام نے فقط ایک خاص طبقے، مسلک یا دین کے پیروکاروں کو اپنے دریائے علم سے سیراب کیا، بلکہ ہر وہ شخص جسے علم کی تڑپ تھی، اس نے وجود امام سے خود کو بہرہ مند کیا۔


امام علیہ السلام نے ایسے حوزے کی بنیاد رکھی، جس میں امام چار ہزار شاگردوں کو درس دیا کرتے تھے، ایسا حوزہ جس سے بڑی بڑی شخصیات وجود میں آئیں، جن میں سے چند ایک یہ ہیں، واصل بن عطاء جو کہ مذہب معتزلہ کے بانی ہیں، نعمان بن ثابت جو ابو حنیفہ کے نام سے مشہور ہیں اور فقہ حنفی کے موجد ہیں۔ جابر بن حیان جنہیں علم کیمیا کا باپ (Father of chemistry) کہا جاتا ہے۔ اہل سنت کے فقہاء اربعہ بلاواسطہ یا بالواسطہ شاگرد رہے ہیں۔ ابو حنیفہ امام جعفر صادق علیہ السلام کی علمی عظمت کو یوں بیان فرماتے ہیں "لو لا السنتان لھلک النعمان" اگر میری زندگی میں وہ دو سال نہ ہوتے، جو امام جعفر صادق علیہ السلام کے سامنے زانوئے تلمذ کیا ہے تو میں ہلاک ہو جاتا۔ اسی طرح اہل سنت کی ہی ایک بزرگ شخصیت عمرو بن محمد معتزلی فرماتے ہیں "هلک من قال براءیه و نازعکم فی الفضل و العلوم" جو بھی اپنی رائے و فکر کے مطابق بات کرے اور علم و فضل میں آپ کے ساتھ منازعہ کرے ہلاک ہوگا۔


اسی امام علیہ السلام کے پیروکار کہلانے والے ہم آج خود کو دیکھیں کہ علمی اعتبار سے دنیا میں ہمارا مقام کیا ہے، جب ہم اپنا یہ محاسبہ کریں تو بہت ہی افسوس ہوتا ہے کہ ہم وہ راہیں طے نہ کر پائے، جو ہمیں کرنی چاہیئں تھیں۔ آج ہم اپنی علمی تشنگی کو مٹانے کیلئے غیروں کے دستر خوان پر زانو تلمذ کئے ہوئے ہیں۔ اگرچہ علم حاصل کرنا کسی سے بھی عیب نہیں ہے، لیکن امام جعفر صادق علیہ السلام جیسے امام کے ہوتے ہوئے ہم علمی طور پر اتنے پیچھے ہوں کہ دوسروں کے دستر خوان سے علمی لقمے تناول کر رہے ہوں تو واقعاً شرم کا مقام ہے۔


الحمد للہ اس عصر میں تشیع کے اندر کچھ شعور آیا ہے اور اب بہت سے علوم میں ایسی شخصیات میدان میں وارد ہوئیں، جنہوں نے بہت سے تشنگان کو سیراب کیا ہے۔ مثلاً ملا صدرا جیسی عظیم شخصیت جنہوں نے حرکت جوہری کا نظریہ پیش کیا۔ آیت اللہ العظمیٰ امام خمینی(رہ)، امام خامنہ ای دام ظلہ العالی، شہید مطہری (رہ)، ڈاکٹر علی شریعتی(رہ)، آیت اللہ شہید باقر الصدر (رہ)، آیت اللہ جوادی آملی حفظہ اللہ، آیت اللہ حسن زدہ آملی حفظہ اللہ، استاد سید جواد نقوی حفظہ اللہ و ان جیسی دیگر عظیم شخصیات جنہوں نے دین کو فقط احکام فقہی تک محدود نہیں گردانا بلکہ علم سیاست، معاشرہ شناسی، انسان و کائنات شناسی، نفسیات شناسی، فلسفہ، اقتصاد جیسے دیگر علوم میں قدم رکھا اور بہترین انداز میں اسلامی نکتہ نگاہ پیش کیا ہے۔ یہ ایک قدم ہے اور ان شاء اللہ امید ہے کہ مستقبل میں مسلمانوں کے دستر خوان پر تمام اقوام اپنی علمی تشنگی بجھائیں گی۔