غور وفکر کی فضیلت

مفکر انسان ہر معاشرہ میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ ایسے لوگ سماج میں زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں

ID: 58911 | Date: 2019/05/13

غور وفکر کی فضیلت


تفکر کی بہت زیادہ فضیلت ہے۔ تفکر ابواب معارف کی کنجی اور کمالات و علوم کے خزانوں کی چابی ہے اور سلوک انسانیت لازمی اور یقینی مقدمہ ہے۔ قرآن کریم اور احادیث میں اس کی کافی تعظیم و تکریم کی گئی ہے۔ اس کی پہلی شرط نفس سے جہاد اور حق کی جانب توجہ اور حرکت کرنا "تفکر" ہے۔


خداوند عالم نے انسان کو کرامت بخشی ہے اور اسے اپنی اشرف مخلوقات قرار دیا ہے کیونکہ اسے غور و فکر کرنے اور عقل و شعور کی قوت دی ہے۔ انسان کا دیگر تمام حیوانات سے امتیاز اس کی قوہ عاقلہ ہے۔ وہ قوت جو انسان کو غور و فکر کرنے پر مجبور کرتی ہے اور انسانوں کے درمیان بھی ایک دوسرے سے امتیاز صحیح اور زیادہ غور و فکر کرنے میں ہے۔


مفکر انسان ہر معاشرہ میں خاص اہمیت کا حامل ہوتا ہے کیونکہ ایسے لوگ سماج میں زیادہ موثر ثابت ہوتے ہیں۔ کس بارے میں غور و فرک، مقصد خلقت کے بارے میں غور فکر، آیات الہی میں غور و خوض، خالق اور اس کے اسماء اور صفات کے بارے میں غور فکر، خلقت  کے لطائف اور عجائب کے بارے میں، الطاف الہی، احوال قیامت، جمال و جلال خداوند کے بارے میں غور و فکر، نیک اعمال اور عبادات کے بارے میں، خاص اوقات بالخصوص اوقات نماز کے بارے میں، اولیائے الہی، تاریخ اور گذشتگان کے حالات کے بارے میں تفکر، قرآن کریم اور دعاؤں کے بارے میں غور و فکر، اگر ہم میں سے ہر کوئی اپنی روزمرہ کی زندگی میں مذکورہ بالا امور کے بارے میں غور و فکر کرے تو یقینا ہمارے بہت سارے امور کی اصلاح ہوجائے گی اور ہم ایک دوسری راہ طے کرنے لگیں گے۔ ہم نے جن مطالب کی جانب اشارہ کیا ہے ان سے پہلے قرآن کریم نے انسانوں کو اس کی تاکید کی ہےکہ ہم غور و فکرکریں؛ کیونکہ خلقت کے اعلی مقاصد تک رسائی اور دنیا و آخرت کی سعادت تک دستیابی انہی امور میں تفکر پر مبنی ہے۔


اگر ہم کچھ  گھڑی موجودات عالم کے بارے میں تفکر کریں کہ ہم بھی انہی میں سے ایک ہیں اور کوئی موجود بھی اپنا کچھ بھی نہیں رکھتی اور جو کچھ انہیں ملا ہے وہ سب الطاف الہی ہے۔ خواہ ہمارے دنیا میں آنے سے پہلے یا آنے کے بعد عہد طفولیت سے لیکر آخری عمر تک یا مرنے کے بعد تک اگر ہم سنجیدگی کے ساتھ غور وفکر کریں تو شاید ہمارے اندر ایک گھنٹی بجے اور ہم اپنی اور خالق کی حقیقت کی جانب متوجہ ہوں اور خدا کی سمت راستہ کھلے۔ (صحیفہ امام، ج 21، ص 274)


اتنا تو طے ہے کہ ہم سب خدا کی مخلوق ہیں اور خدا ہمارا خالق ہے اور یہ بھی طے ہے کہ خالق اور مخلوق کے حقوق اور فرائض ہیں، ہمارا اپنا کچھ بھی نہیں ہے۔ ہمارے پاس جو بھی ہی وہ خدا کا دیا ہوا ہے۔ ہمارا اس کے سوا کوئی حقیقت نہیں ہے۔ اسی کی بنائی دنیا میں ہم سانس لیتے، کھاتے، پیتے اور گھومتے اور سب کچھ کرتے ہیں۔ ہمارے اس میں کچھ بھی نہیں ہے نہ ہم اپنے نفع کے مالک ہیں اور نہ اپنے نقصان کے۔ اگر ہم سب خالق ہستی کی طرف متوجہ ہوں اور اپنے فرائض کو سمجھیں اور اس کی طرف رجوع کریں تو یقینا ہماری دنیا و آخرت دونوں سنور جائے۔