امام حسین (ع) کا قیام شرعی فریضہ کو تعین کرتا ہے

جس طرح سید الشہداء (ع) نے اپنی شرعی ذمہ داری پرعمل کرتے ہوئے غلبہ حاصل کرنا چاہا ہے، انسا ن اگر مغلوب بھی ہوجائے تو اُسے اپنی شرعی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے

ID: 58714 | Date: 2019/04/27

امام حسین  (ع) کا قیام شرعی فریضہ کو تعین کرتا ہے


اگر ایک قوم ایک برحق بات کیلئے مقاومت کرنا چاہتی ہے تو اُسے تاریخ سے استفادہ کرنا چاہیے۔ اُسے دیکھنا چاہیے کہ تاریخ میں  کیا کچھ ہوا ہے اور یہ گذشتہ تاریخ ہی ہمارے لئے نمونہ ہے۔ حضرت سید الشہداء  ؑ نے ایک قلیل سی تعدا د کے ساتھ حرکت کی تھی اور یزید جیسے شخص کے مقابلے میں  کھڑے ہوگئے تھے، جو ایک اکڑ باز حکمران تھا اور ایک مقتدر حکومت رکھتا تھا، وہ اسلام کا اظہار بھی کرتا تھا، اُس کے خیال میں  اُس کی حکومت ایک اسلامی حکومت تھی اور وہ بزعم خود رسول اللہ  ؐ کا خلیفہ تھا، لیکن اُس کا نقص یہ تھا کہ وہ ایک ایسا ظالم انسان تھا کہ جو بغیر کسی حق کے ایک مملکت کے مقدرات پر مسلط ہوچکا تھا۔ یہ جو حضرت ابی عبد اللہ  ؑنے اس کے مقابلے میں  تحریک چلائی ہے اور قلیل تعداد کے ساتھ قیام کیا ہے، یہ سب اس لئے تھا کہ امام  ؑ اسے اپنا شرعی فریضہ جانتے تھے۔ امام  ؑ فرماتے ہیں : ’’میر ا شرعی فریضہ ہے کہ میں  اس کا انکار کروں  اور اسے نہی عن المنکر کروں ‘‘۔


 اگر ایک ظالم حاکم عوام پر مسلط ہوجائے تو علمائے ملت اور قومی دانشوروں  کو چاہیے کہ وہ اس کا انکار کریں  اور اُسے نہی عن المنکر کریں ۔ حالانکہ امام  ؑ جانتے تھے اور قاعدتاً بھی معلوم تھا کہ جو قلیل تعداد آپ  ؑ کے ساتھ تھی (کافی نہیں  تھی) کہا جاتا ہے، چار ہزار افراد تھے، لیکن رات کے وقت سب چلے گئے تھے سوائے قلیل سی تعداد کے (شاید) ستر یا اسی نفر یا بہتّر نفر باقی رہ گئے تھے۔ لیکن اس کے باوجود آپ ؑ نے اس قدرت کے سامنے مزاحمت کرنا اور قتل ہوجانا اپنا شرعی فریضہ جانا تاکہ وہ اپنی اور اپنے ہمراہ اس قلیل تعداد کی جان نثاری کے ذریعے اس حالت کو تبدیل کرکے اس طاقت کو رسوا کردیں ۔ آپ  ؑ دیکھ رہے تھے ایک جائر حکومت اُن کی مملکت کے مقدرات پر مسلط ہوچکی ہے، لہذا آپ ؑنے اپنی شرعی ذمہ داری اور اپنے الٰہی فریضے کی تشخیص دیتے ہوئے اس کے خلاف تحریک شروع کردی اور اس کا انکار کرنے اور اس کی مخالفت کرنے کیلئے نکل کھڑے ہوئے، خواہ جو بھی نتیجہ نکلے۔ حالانکہ قاعدتاً واضح تھا ایک قلیل گروہ، اس قدر بڑے گروہ کا مقابلہ نہیں  کرسکتا، لیکن مسئلہ شرعی فریضے کا تھا، لہذا یہ ہم اور آپ کیلئے ایک نمونہ ہے، اگر ہماری تعداد کم بھی ہو تو پھر بھی ہمیں  انکار اور نہی عن المنکرکرنا چاہیے۔


(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۱۶۲)


جس طرح سید الشہداء  (ع) نے اپنی شرعی ذمہ داری پرعمل کرتے ہوئے غلبہ حاصل کرنا چاہا ہے، انسا ن اگر مغلوب بھی ہوجائے تو اُسے اپنی شرعی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے۔ مسئلہ شرعی فریضہ کا ہے، مسئلہ یہ ہے کہ انسان ایک ایسے شخص کے مقابلے میں  (قیام کرے کہ جو) اسلام اور مسلمانوں  کی تمام ترآبرو اور حیثیت کو خراب کررہا ہے اور مسلمانوں  کے مقدرات پرمسلط ہوچکا ہے اور امریکہ کو مسلمان علاقوں  پر مسلط کررہا ہے، ایرانی فوج کو امریکی مشیروں  کے سپرد کررہا ہے، ایران کے خزانوں  کو اپنوں  اور بیگانوں  کی جیب میں  ڈال رہا ہے، ایرانی ثقافت کو تباہ کررہا ہے اور (آج) شاہ ایران ایک ایسے شخص کی مانند بن چکا ہے کہ جو ایسی مسند پر بیٹھا ہوا ہے جس پر امام حسین  (ع) جیسی ہستی کو بیٹھنا چاہیے، یہاں  نہی عن المنکر لازم ہے، یعنی سب لوگوں  پر لازم ہے کہ وہ اسے کہیں : اس مسند سے اُتر جائو، یہ سب کا شرعی فریضہ ہے۔


(صحیفہ امام، ج ۵، ص ۱۶۳)