خلقت انسان کا فلسفہ

خداوند حکیم اور قدیر نے انسانوں کی خلقت کا مقصد اور اس کی پیدائش کی غرض قرآن کریم میں عبادت و بندگی بتائی ہے

ID: 57393 | Date: 2019/01/24

خداوند عالم نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا ہے اور اسے انواع و اقسام نعمتوں سے نواز کر موجودات عالم کی باعظمت ترین مخلوق قرار دیا هے۔ لیکن سوال یہ ہی کہ خداوند عالم اس انسان کو کیوں خلق فرمایا؟ آخر ان کی خلقت سے کوئی مقصد رہا ہوگا اس لئے کہ وہ حکیم علی الاطلاق ہے اور حکیم کا کوئی کام اور فعل حکمت سے خالی نہیں ہوتا، حکیم کے ہر کام میں کوئی نہ کوئی حکمت اور فلسفہ ہوتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ ان حکمتوں تک ہماری رسائی نہ ہو یا ہماری نظروں سے اوجھل ہوں اور ہم ان کا ادراک نہ کر پاتے ہوں۔


خداوند حکیم اور قدیر نے انسانوں کی خلقت کا  مقصد اور اس کی پیدائش کی غرض قرآن کریم میں عبادت و بندگی بتائی ہے؛ "میں نے انس و جن کو خلق نہیں کیا مگر یہ کہ وہ میری عبادت کریں" یعنی اللہ تعالی کی معرفت حاصل کریں، اس کی شناخت کریں، اسے پہچانیں، آیہ کریمہ، انسان کی خلقت کا مقصد آدمی کی روح کی پرورش اور عبادت کے ذریعہ مختلف میدانوں میں اسے کمال تک پہونچانا باعث ہوتا ہے کہ انسان خدا کی طرف متوجہ ہو اور ہر لمحہ، ہر پل اور ہر آن اس کے وجود کا احساس کرے اور گناہوں کے ارتکاب سے شرم کرے اور اس طریقہ سے گناہ اور غفلت سے پاک ہو کر اپنے دل کو بلند و بالا، عادات و اطوار، اخلاق وکمالات کی پرورش کا مرکز قرار دے۔ البتہ عبادت سے مراد صرف ذکر، رکوع، قعود و قیام اور قنوت و سجود نہیں ہے بلکہ اس سے مراد ہر وہ مثبت عمل ہے جو انسان خالص نیت کے ساتھ انجام دیتا ہے۔


اسی طرح قرآن مجید ارشاد فرماتا ہے: وہ ذات جس نے موت اور حیات کو خلق کیا تا کہ آزمائے کہ تم میں عمل کے اعتبار سے سب سے بہتر کون ہے۔


اس آیہ کریمہ نے موت اور زندگی کی خلقت کا مقصد الہی آزمائش اور امتحان بتارہی ہے۔ حکمت الہی میں غور و خوض کرنے سے ہم ادراک کرتے ہیں کہ امتحان بھی انسان کی تربیت، ترقی اور کمال تک جانے کا سبب ہے۔


مذکورہ بالا آیات میں غور و فکر کرنے سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ خلقت کی غرض و غایت اور مقصد کو بیان کرنے میں کوئی اختلاف نہیں ہے اور اللہ کی ساری آیات انسان کے کمال تک پہونچنے کو خلقت کا مقصد جانتی ہیں۔ در حقیقت عبادت اور امتحان الہی انسان کے کمال تک پہونچنے کی راہ ہموار کرتا ہے اور خود آخری مقصد نہیں تھا بلکہ انسان کے آخری کمال تک پہونچنے کا مقصد ہوں گے۔


کمال کے بے شمار مرحلے ہیں کہ ان میں سے ہر ایک اپنے سابق مرحلہ کی نسبت بالاتر ہے اور انسان کے آخری کمال سے مراد وہ نقطہ ہے کہ اس سے آگے انسان کے لئے کمال کا تصور ممکن نہیں ہے ۔ اس طرح سے کہ جد و جہد اس تک پونچنے اور اسے حاصل کرنے کے لئے ہو۔ بنابریں، قرآن کی آیت اس دنیا میں انسان کی سعی و کوشش کو لقائے الہی تک پہونچنا اور تقرب الہی جانتی ہیں۔


دوسری آیت انسان کی خلقت کا مقصد رحمت الہی تک پہونچنا بتارہی ہے۔ اسی طرح دوسری آیت میں متقین کے لئے جنت کی نوید دے رہی ہے اور انسان کی کوشش کا نتیجہ تقرب خداوندی کو جانتی ہے۔ کسی آیت میں لقائے الہی تک رسائی انسان کا آخری کمال بتایا گیا ہے۔ بنابریں انسان کا آخری کمال اور اس کی خلقت کا مقصد خدا کا تقرب ہے اور عبادت و امتحان اس آخری مقصد تک پہونچنے کے راستے ہیں۔


امام خمینی (رح) فرماتے ہیں کہ انسان کا تربیت قبول کرنے والا ہونا خدا کا اس پر ایک لطف ہے کہ وہ تربیت ہونے کے قابل ہے۔ کہیں پر فرماتے ہیں: انسان خدا کی نعمتوں پر نظر کرے اور اس کا شکر کرے جتنا کرے گا وہ کم ہوگا، چونکہ اس کی نعمتیں بے شمار ہیں۔