رحمت خداوندی سے امید

مومن بندہ کے دل میں دو نور ہوتا ہے: ایک خوف خدا کا نور اور دوسرا امید کا نور

ID: 54576 | Date: 2018/07/10

امام خمینی (رح) فرماتے ہیں:


ہم قرآن کریم میں خدا کے خاص بندوں کے خصوصیات کے بارے میں اس طرح ملاحظہ کرتے ہیں: خداوند رحمن کے بندے وہ لوگ ہیں جو کہتے ہیں کہ خدایا ہمیں دوزخ کے عذاب سے دور رکھ کہ اس کا عذاب سخت اور دائمی ہے یقینا دوزخ قیام کے لئے برا ٹھکانہ اور مقام ہے۔


خداوند کریم نے اپنے ممتاز اور برگزیدہ بندوں کی چوتھی خصوصیت کی طرح اشارہ کیا ہے، یعنی عذاب الہی سے بہت ڈرتے ہیں اور راسخ عقیدہ رکھتے ہیں کہ خدا کی نافرمانی شیطان کی اطاعت کرنے کے معنی میں ہے اور اس طرح کا کام عذاب الہی اور جہنم میں جانے کا موجب ہے۔ وہ لوگ گناہ کے نتائج اور دوزخ کے عذاب سے اس درجہ خوفزدہ اور ڈرے ہوئے ہیں کہ انہوں نے اپنی اس اندرونی حالت کا اظہار کیا اور پورے خضوع و خشوع کے ساتھ دعا کرتے ہیں اور خدا کی بارگاہ بے نیاز میں رو  رو کر دعا کرتے ہیں کہ مجروموں کے لئے آمادہ عذاب دوزخ سے بچا، ان لوگوں نے طبیعتا موجب عذاب کاموں سے پرہیز کیا اور فرمان الہی کی انجام دہی اور حکم الہی کی بجا آوری سے رحمت خداوندی کو اپنی جانب متوجہ کرلیا ہے اور ان کے لئے یہ حالت دائمی ہے اور ایک آن کے لئے بھی خوف خدا سے دور نہیں ہوتے۔ ہمہ وقت خدا ان کی نظروں میں ہوتا ہے۔ وہ لوگ اللہ کے وعدہ عذاب کو مذاق نهیں سمجھتے۔ امام باقر (ع) فرماتے ہیں:


مومن بندہ کے دل میں دو نور ہوتا ہے: ایک خوف خدا کا نور اور دوسرا امید کا نور۔ ان دونوں کا ایک دوسرے سے موازنہ کیا جائے تو کوئی کسی پر فضیلت و برتری نہیں رکھتا۔


امیدواری، مایوسی کی ضد ہے جیسے رجاء کہتے ہیں۔ رجاء، کسی محبوب اور پسندیدہ امر کے انتظار کی وجہ سے دلی سرور و انبساط کا نام ہے۔ رجاء اور امیدواری اس وقت حاصل ہوتی ہے جب انسان نے اپنے محبوب تک پہونچنے کے بہت سارے اسباب فراہم کرلئے ہوں۔ اس نے اپنی طاقت اور صلاحیت کے بقدر طاعت و عبادت کی ہو۔ اب اس طرح کا انسان اس کسان کی طرح ہے جو بے عیب بیج پیداوار زمین میں ڈال دیتا ہے اور اسے وقت پر پانی دیتا اور فالتو گھاس کو اکھاڑ پھینکتا ہے پھر کافی احتیاط اور تدبیر کرنے نیز سینچائی و غیرہ کرنے کے بعد کھلیاں کی امید رکھتا ہو۔


دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ دل ایک زر خیز زمین کی طرح ہے، ایمان صحیح و سالم بیج کی طرح اور طاعات و عبادات نیک اعمال کی طرح ہیں اور بیکار کی گھاس  بخل و حسد، کینہ اور بدگمانی کی طرح برے اور ناپسندیدہ اعمال واخلاق کی طرح ہے کہ دل کی کھیتی سے اسے اکھاڑ پھینکا جائے تا کہ مرغوب نتیجہ اور مطلوبہ کھلیاں بنے۔


خدا سے حسن ظن رکھنا، اس سے امید اور لو لگانا کہ وہ حکیم، علیم، قادر، رازق اور ستار العیوب اور غفار الذنوب ہے۔ وحدانیت حق پر ایمان لانے کا لازمہ ہے اور خداوند عالم اپنے بندہ کے ساتھ اپنی نسبت اس کے حس ظن کے مطابق عمل کرے گا۔


امام خمینی (رح) فرماتے ہیں: رجاء یعنی امید اور اصطلاح میں دل کا اس امر سے تعلق پیدا کرنا جس کی مستقبل میں آرزو رکھتا ہے۔ آقا خواجہ عبداللہ انصاری اسے یقین کا ایک پرجانتے ہیں جو خوف کا مکمل ہے جس کے بغیر انسان پرواز کرنے کی صلاحیت نهیں رکھتا۔