امام خمینیؒ کے کلام میں وحدت اسلامی کے قرآنی دلائل

« یدُ الله مع الجماعة » آپ کے ذہنوں سے محو نہ ہونے پائے؛ اگر تمام جماعتیں اکٹھی ہوں اور نظریہ بھی اسلامی ہو تو خدا کا دستِ رحمت اُن کے سروں پر ہوگا۔

ID: 50655 | Date: 2017/12/06

حضرت امام خمینیؒ نے " اُمت کی وحدت " کے موضوع پر جو مختلف تعبیرات استعمال کی ہیں کسی اور موضوع پر ان کی مثال مشکل سے ملتی ہے۔ وہ دقیق و لطیف اور پُر مغز تعبیرات کہ اگر پڑھنے والا انہیں سرسری طور پر نہ پڑھے بلکہ ان کے معانی و مفاہیم میں غور و خوض اور تفکر و تامل کرے تو اس کے فہم و ادراک کی دنیا پر معاشرتی و اجتماعی اور تربیتی افکار کے وسیع آفاق روشن ہو جائیں گے اور وہ الہٰی معارف و تعلیمات اور قرآنی حقائق و واقعیات کے اہم ترین نکات تک دسترسی حاصل کرلےگا۔


پیغمبر گرامی اسلام حضرت محمد مصطفیﷺ کی ولادت باسعادت کے مبارک موقع پر ہم بعض ان آیات کریمہ کو یہاں پر ذکر کرتے ہیں کہ حضرت امام خمینیؒ نے وحدت کی بحث میں ان پر استناد یا انکے مضامین و معانی و مفاہیم کیطرف اشارہ کیا ہے۔ البتہ اس اُمید کے ساتھ کہ ہماری توضیحات و تشریحات امام راحلؒ کے کلام کی نورانیت و معنویت کو کم نہیں کریں گی بلکہ اس کے صحیح دقیق اور بہتر فہم و ادراک کا مقدمہ ثابت ہوں گی۔


۱۔ وحدت نعمت ہے:


«... وَ اذْکُرُواْ نِعْمَةَ اللّهِ عَلَیْکُمْ إِذْ کُنتُمْ أَعْدَاء فَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِکُمْ فَأَصْبَحْتُم بِنِعْمَتِهِ إِخْوَانًا ...»[۱] اور تم اللہ کی نعمت کو یاد کرو جب تم لوگ ابتداء میں آپس میں دشمن تھے لیکن اُس نے تمہارے دلوں کو ایک دوسرے کے قریب کر دیا اور تم اُس کی نعمت سے بھائی بھائی بن گئے۔
یہ اب ایک نعمت جو خداوند متعال نے ہمیں دی ہے کہ ہم سب بھائیوں کی طرح اطمینان سے ایک دوسرے کے سامنے بیٹھے ہیں، اپنی باتیں کررہے ہیں، اس کا خیال رکھیں۔[۲]


سب بھائیوں کو چاہیے کہ حُسن نیت اور وحدت و اُخوّت کے ساتھ اکٹھے اور مل کر رہیں اور الحمد للہ ہیں۔ یہ نعمت جو کہ خداوند متعال نے ہمیں عطا فرمائی ہے اور سب سے بڑی نعمت ہے، ہمیں چاہیے کہ اس الہٰی نعمت کی حفاظت کریں۔ جب تک ہم نے اس الہٰی نعمت کی حفاظت کی اس وقت تک ہم تمام شیطانوں کے شر سے محفوظ رہیں گے۔[۳]


۲۔ وحدت معجزہ ہے:


«وَأَلَّفَ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ لَوْ أَنفَقْتَ مَا فِی الأَرْضِ جَمِیعاً مَّا أَلَّفَتْ بَیْنَ قُلُوبِهِمْ وَ لَکِنَّ اللّهَ أَلَّفَ بَیْنَهُمْ ...»[۴] اور خداوند متعال نے مومنین کے دلوں کو ایک دوسرے کے نزدیک کیا اور ان کے درمیان اُلفت و محبت پیدا کی کہ اگر آپؐ جو کچھ زمین میں ہے سب خرچ کر دیتے (تاکہ یہ وحدت حاصل ہو جائے) پھر بھی ان کے دلوں میں باہمی اُلفت پیدا نہیں کر سکتے تھے لیکن خداوند عالم نے ان کے درمیان یہ اُلفت و محبت پیدا کردی ہے۔


پوری ایرانی قوم کے درمیان یہ جو وحدت پیدا ہوئی ہے یہ ایک معجزہ تھا۔ کوئی انسان یہ وحدت پیدا نہیں کر سکتا، یہ معجزہ تھا، یہ امرِ الہٰی تھا یہ خدائی کام تھا نہ کہ کسی بشر کا کام۔[۵]



یہ سوائے خداوند متعال کے ارادے کے اور کچھ نہیں ہو سکتا اور چونکہ میں نے بھی شروع ہی سے اس چیز کا احساس کر لیا تھا لہٰذا میں اس تحریک کی کامیابی کے بارے میں پُر امید تھا۔[۶]


۳۔ وحدت واجب ہے:


«وَ لَن یَجْعَلَ اللّهُ لِلْکَافِرِینَ عَلَى الْمُؤْمِنِینَ سَبِیلاً»[۷] اور خداوند متعال ہرگز کافروں کو مومنوں پر غالب نہیں آنے دےگا۔


سب کو چاہیے کہ متحد ہو کر رہیں۔ یہ ہمارے اور پوری ملت کے اُوپر ایک الہٰی اور شرعی ذمہ داری ہے۔[۸]


اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تمام مسلمانوں کو چاہیے کہ ’’یدّ واحدہ‘‘ بن کر رہیں تاکہ اپنے ممالک میں مداخلت کرنے والے مستکبرین و مستعمرین اور غیروں کے ہاتھ کاٹ سکیں۔[۹]
آپ ایسا کام کریں کہ «یدُ الله مع الجماعة» آپ کے ذہنوں سے محو نہ ہونے پائے۔ اگر تمام جماعتیں اور احزاب اکٹھی ہوں اور نظریہ بھی اسلامی ہو تو خدا کا دستِ رحمت اُن کے سروں پر ہوگا۔[1۰]


۴۔ کامیابی کے دو راز؛ ایمان اور اتّحاد:


«وَ اعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِیعًا وَ لاَ تَفَرَّقُواْ»[1۱] اور تم سب خدا کی رسی (دین، کتاب اور انبیاءؑ) کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ پیدا نہ کرو۔


ہمیں وحدت و اتّحاد اور اسلام پر اعتماد کی وجہ سے کامیابی نصیب ہوئی ہے۔ ہمیں اللہ اکبر نے کامیاب کیا ہے اب بھی ہمارا اسلحہ وہی اللہ اکبر ہی ہے۔ ہمیں وحدت و اتّحاد نے کامیابی سے ہمکنار کیا ہے اور اب بھی ہمارا اسلحہ وہی وحدت و یگانگت ہی ہے۔[1۲]


یہ دو الفاظ: سب وحدت کے ساتھ اور سب اسلام کے ساتھ۔ یہ دو الفاظ آپ کی کامیابی کا راز تھے اور «وَ اعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِیعًا وَ لاَ تَفَرَّقُواْ» کی آیت کریمہ پر عمل۔ اس آیت کریمہ میں یہی راز ہے کہ آپ سب خدا سے متصل ہو جائیں اور ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں؛ سب اکٹھے اور خدا کی طرف متوجہ ہوں۔[1۳]


۵۔ اخوّت کی حد تک وحدت:


«إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ»[1۴] مومنین تو بس آپس میں بھائی بھائی ہیں۔


«إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِینَ»[1۵] وہ برادرانہ طور پر تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔


اسلام نے مختلف تعبیرات کے ساتھ اخوّت پر زور دیا ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» سے یہ پتا چلتا ہے کہ گویا مومنین کا آپس میں سوائے برادری کے اور کوئی تعلق نہیں ہے ان کا سب کچھ اسی برادری میں منحصر ہے۔[1۶]


قرآنِ کریم کے حکم کی روشنی میں پوری دنیا کے مومنین آپس میں بھائی بھائی ہیں اور بھائی آپس میں برابر بھی ہوتے ہیں اور ایک دوسرے کی خوشی غمی میں شریک بھی۔ اسلام میں یہی اخوّت و برادری ہے جو کہ تمام بھلائیوں اور خیرات و برکات کا سرچشمہ ہے... اسلام اور قرآن نے ہمارے درمیان رشتۂ اخوّت قائم کیا ہے: «إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ إِخْوَةٌ» سب مومنین چاہیے وہ ترک ہوں یا فارس، عرب ہوں یا عجم، جہاں کہیں کے بھی ہوں سب آپس میں بھائی ہیں، یہ قرآن ہے۔[1۷]


تمام اسلامی ممالک کے مومنین اگر اسی ایک خدائی حکم پر (کہ آپس میں بھائی بھائی بن کر رہیں گے) عمل پیرا ہو جائیں تو دنیا کی کوئی طاقت ان کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکےگی۔[1۸]
اسلام کے اخلاقی احکام بھی سیاسی ہیں۔ یہی حکم جو کہ قرآن میں ہے کہ مومنین ایک دوسرے کے بھائی ہیں یہ ایک اخلاقی حکم بھی ہے، ایک معاشرتی و اجتماعی حکم بھی ہے، ایک سیاسی حکم بھی ہے... یہ ایک ایسا اخلاقی حکم ہے کہ جس میں اجتماعی و معاشرتی حکم بھی ہے اور اس کے علاوہ اس میں سیاسی پہلو بھی پائے جاتے ہیں۔ اس کے سیاسی پہلو یہی تھے جو سب نے دیکھے کہ ایرانی قوم جب اکٹھی ہوئی اور سب بھائیوں کی طرح ایک دوسرے کے ساتھ کھڑے ہوئے اور سب نے اسلامی اخوّت و برادری کی طرف توجہ کی تو بڑی طاقتیں ان بھائیوں کے مقابلے میں، ان کے مقابلے میں جو کہ اکٹھے ہو چکے تھے، نہ ٹھہر سکیں اور سب یہاں سے رختِ سفر باندھ گئیں۔[19]


جہنمی لوگ جہنم میں جن دردناک عذابوں میں مبتلا ہیں ان میں سے ایک عذاب ’’خصام اهلالنار‘‘ (ان کی آپس میں دشمنی) ہے اور بہشتی لوگ بہشت میں جن عظیم نعمتوں سے بہرہ مند ہیں ان میں سے ایک نعمت «إِخْوَانًا عَلَى سُرُرٍ مُّتَقَابِلِینَ» ’’اہل بہشت کے درمیان اخوّت و برادری‘‘ ہے۔ یہ خدا کی عظیم نعمتوں میں سے ایک نعمت ہے اور وہ خصام و دشمنی جو جہنم میں ہے ان عذابوں میں سے ایک عذاب ہے جو جہنمیوں پر ہے کہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔[20]



۶۔ نزاع، یقینی شکست کے مساوی ہے:


«وَ أَطِیعُواْ اللّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَ تَذْهَبَ رِیحُکُمْ وَ اصْبِرُواْ إِنَّ اللّهَ مَعَ الصَّابِرِینَ»[21] اللہ اور اس کے رسولﷺ کی اطاعت کرو اور آپس میں نزاع نہ کرو ورنہ ناکام رہو گے اور تمہاری شان و شوکت اور طاقت و قدرت ختم ہو جائے گی اور صبر سے کام لو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔


قرآن مہجور و متروک ہے، قرآن کے احکام مہجور ہیں۔ صرف اس سے کہ آپ میناروں سے اذان دیتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں، جبکہ اسلام کے اکثر سیاسی احکام پر عمل نہیں کرتے، قرآن مہجوریت سے باہر نہیں آئے گا۔ البتہ قرآنِ کریم کی قرائت و تلاوت اور انسان کی زندگی کے تمام اُمور میں قرآن کا موجود ہونا ضروری اُمور میں سے ہے لیکن یہ کافی نہیں ہے۔ قرآن ہماری زندگی کے تمام مسائل اور اُمور میں موجود ہونا چاہیے۔ قرآن جب فرماتا ہے: «وَ اعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِیعًا وَ لاَ تَفَرَّقُواْ» ساتھ یہ بھی فرماتا ہے: «وَ لاَ تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَ تَذْهَبَ رِیحُکُمْ» ان ترقی یافتہ سیاسی احکام پر اگر عمل ہو جائے تو پوری دنیا کی حکمرانی آپ کے ہاتھ میں ہوگی۔ ہم نے اس قرآن کو مہجور و متروک چھوڑ دیا اور ان مسائل پر عمل نہیں کیا۔[22]
انہیں چاہیے کہ پوری سنجیدگی کے ساتھ اپنے آپ کو اسلام اور ملک کی خدمت کے لیے وقف کر دیں تاکہ خداوند متعال ان کی پشت پناہی فرمائے اور انسان ساز آسمانی ندا: «وَ اعْتَصِمُواْ بِحَبْلِ اللّهِ جَمِیعًا وَ لاَ تَفَرَّقُواْ» کو مدّنظر رکھیں اور اس کی اطاعت کریں اور نزاع و افتراق سے پرہیز کریں اور خداوند متعال کے اس درس آموز فرمان کو غور سے سنیں: «وَ لَا تَنَازَعُواْ فَتَفْشَلُواْ وَ تَذْهَبَ رِیحُکُمْ» کہ نزاع کا نتیجہ شکست، ناکامی و نامرادی اور بےعزتی و بےآبروئی اور رسوائی ہے۔[23]


قرآن کریم نے خبردار کیا ہے کہ اگر نزاع کرو گے تو ناکام ہو جاؤ گے۔ آپ مسلمانوں کے درمیان ناکامی کے آثار دیکھ رہے ہیں، ناکامی کے آثار عرب ممالک میں دیکھ رہے ہیں۔ اس سے بڑھ کر اور ناکامی کیا ہوگی کہ وسیع و عریض اسلامی ممالک اپنی تمام تر سیاسی و فوجی طاقت و قدرت اور زمینی و زیر زمینی ذخائر کی دولت کے باوجود اسرائیل کے سامنے ناکام ہیں۔ آپ ناکامی کسے کہتے ہیں؟ کیا ناکامی اس کے علاوہ کسی اور چیز کا نام ہے کہ ایک حکومت یا ایک ملت کو جو کام اپنے نظام کی حفاظت کے لیے کرنا چاہیے وہ نہ کر سکے۔ مسلمان ایک دشمن کے سامنے ناکام اور ذلیل و خوار ہیں کہ جس نے اسلام پر حملہ کیا ہے، اسلامی ممالک پر حملہ کیا ہے اور ہر روز اپنی قلمرو کو وسعت دے رہا ہے اور اپنے لیے ایک ملک اور سرزمین پر قانع نہیں ہے اور مسلمان اس کے مقابلہ میں کمزور اور مغلوب ہیں۔[24]




حوالہ جات


خسروی، محمدعلی، مستندات قرآنی وحدت در کلام امام خمینیؒ / http://jamaran.ir/fa


۱/۔ سورۂ آل عمران، آیت۱۰۳


۲/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۰، ص۱۵۵


۳/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۶، ص۱۷۳


۴/۔ سورۂ انفال، آیت۶۳


۵/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۶، ص۳۱۰


۶/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۶، ص۱۷۳


۷/۔ سورۂ نساء، آیت۱۴۱


۸/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۲۰، ص۲۲۶


۹/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۲، ص۴۰۳


۱۰/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۲، ص۴۴۸


۱۱/۔ سورۂ آل عمران، آیت۱۰۳


۱۲/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۳، ص۱۵۵


۱۳/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۸، ص۵۰۵


۱۴/۔ سورۂ حجرات، آیت۱۰


۱۵/۔ سورۂ حجر، آیت۴۷


۱۶/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۵، ص۴۷۱


۱۷/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۱، ص۳۶۷


۱۸/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۱، ص۴۹۱


۱۹/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۳، ص۱۳۱


۲۰/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۳، ص۱۰۰


۲۱/۔ سورۂ انفال، آیت۴۶


۲۲/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۶، ص۳۸


۲۳/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۲، ص۳۶۳


۲۴/۔ صحیفہ امام خمینیؒ، ج۱۶، ص۳۵