آیت اللہ قاضی طباطبائی(رح) کی شہادت کی مناسبت سے

سید محمد علی 16/ سال کے تھے کہ رضا خان اس ملک کے مقدرات اور ملک پر قابض ہوگیا

ID: 50073 | Date: 2017/11/01

آیت اللہ قاضی طباطبائی 1293 ھ ش کو تبریز میں دینی علماء کے گھرانے میں پیدا ہوئے۔ انھوں نے دینی علوم کے اصول کی تبریز میں تعلیم حاصل کی۔ ان کے والد نے انھیں تفسیر کشاف کا درس دیا۔ اور موسی تبریزی اور محمد علی قراچہ جیسے اساتذہ سے فیض حاصل کیا۔ تبریزی کے پوتے نے بھی انھیں فارسی اور عربی ادب کی تعلیم دی۔ ان کی والد نے انھیں تاکید کی کہ کچھ شاگردوں کو پڑھانے کے لئے امام قلب نخجوانی کے مکتب جائیں۔


سید محمد علی 16/ سال کے تھے کہ رضا خان اس ملک کے مقدرات اور ملک پر قابض ہوگیا اور اپنے اسلام سے جنگ کے جذبہ کے ساتھ مقدسات اسلامی کو مٹانے پر کمر بستہ ہوگیا تھا تو بیدار دل افراد نے روحانیت کی قیادت میں علم مخالفت بلند کیا اور تبریز چونکہ ہمیشہ سے مقابلہ کا علمبردار رہا ہے 1342ھ ش کو لوگوں کے قیام کے بعد سید اور آپ کے والد کو جلا وطن ہونا پڑا۔ حکومتی اہل کاروں نے آپ کے نہ ہونے پر (مشہد میں موجود) آپ کے گھر کو خراب کردیا اور اسے سڑکوں کا حصہ بنادیا۔ اس طرح سے سید نے اپنی سب سے پہلی سیاسی سرگرمی کا تجربہ کیا۔


اس گھٹن اور تاریک ماحول میں سب کی امید حوزہ علمیہ قم پر لگی ہوئی تھی اور سید بھی کسی ایسے کی تلاش کررہے تھے جو آپ کے جہاد میں تیزی لائے تا کہ اس دوران اپنی مراد کو پہونچے اور صدی کی داستان امام خمینی سے آشنا ہوئے۔


امام خمینی اس وقت حوزہ کے برجستہ ترین استاد تھے کہ آپ کی دو اہم کتاب شرح منظومہ اور اسفار کی تدریس کا میدان اتنا گرم تھا کہ حوزہ کے دروس میں سب سے زیادہ بھیڑ ہوتی تھی۔


سید بھی لگاو کی شدت کی وجہ سے اس مکتب کے شاگرد ہوگئے اور اس طرح سے ان کے اور امام کے درمیان اٹوٹ اور گھرانہ رابطہ ہوگیا۔ حوزہ قم میں آپ کی آمد باعث ہوتی کہ سید محمد حجت کوہ کمری، سید صدر الدین صدر اورسید محمد رضا گلپائگانی جیسے آیات عظام اساتذہ کے سامنے زانوئے ادب تہہ کیا۔


قاضی ثابت قدمی، کرامت اور شرافت جیسے صفات کے مالک تھے اور باری تعالی سے طلب کرنے میں پائیداری کو اسم اعظم کے ادراک کا سبب جانتے تھے۔ سارا زندگی گذارنے کے باوجود غیر شرعی ریاضتوں کے مخالف تھے اور جسم کو بھی اہمیت کا حامل جانتے تھے اور اپنی ظاہری حالت کی رسیدگی کرتے تھے لوگ ہمیشہ انہیں صاف ستھرا اور معطر دیکھتے کہ آپ  حسن عمل اور حسن خلق سے مشہور تھے۔


1349 ھ ق میں قاضی نے ایک دوسری ہجرت کی راہ اپنائی اور اس عظیم حوزہ کی سید محسن حکیم، سید ابوالقاسم خوئی، شیخ عبدالحسین رشتی اور شیح محمد حسین کاشف الغطاء جیسے گرانقدر اور پایہ کے اساتذہ سے کسب فیض کرنے کے لئے سفر کا دقیق پروگرام بنایا۔


لیکن سید کی عمر کا یہ سنہرے موقع کو ابھی زیادہ دن نہیں ہوئے تھے اور ہجرت کے ابھی تین سال بھی نہیں ہوتے تھے کہ اس حوزہ اور اپنے جد کے جوار کو ترک کرنے پر مجبور ہوگئے اور اپنے وطن مالوف کے لئے راہی ہوگئے۔


1342 ھ ش اسی تاریخ کے حدود میں کچھ ایسا ہوا کہ ظلم و جور اور شاہی ستم کے خلاف سید روح اللہ خمینی کی رہبری میں قیام کا آغاز ہوگیا اس اتنا میں تبریز کے بہادر جنگجو لوگوں نے سید محمد علی قاضی جیسے نیک خو انسان کی رہبری میں علم بغاوت بلند کردیا اور حکومت کے لئے خطرناک خواب بن گئے۔


تبریز کی ساواک اس موضوع کی تاب نہ لا سکی اور انھیں گرفتار کرکے تہران لے آئے۔ سب سے پہلے زرہی چھونی میں اس کے بعد قزل قلعہ کے خوفناک قید خانہ میں میزبانی کی گئی۔ اس صورتحال کے دوماہ اور کچھ دن گذرنے اور تہران میں ایک دائمی جلاوطن کے عنوان سے رہ گئے اور آپ کی تمام رفت و آمد پر ساواک کی کڑی نظر رہی۔


اس جلاوطنی کو کچھ دن گذر گئے تھے کہ اپنے وطن واپس آگئے اور 1348 ھ ش کو امام جماعت کے فرائض ادا کرنے لگے اور اس کے بعد حکومت کے خلاف تقدیم کی اور پہلوی کے صہیونسٹ حکومت سے رابطہ کا پردہ فاش کیا۔ ا س وقت رات کے وقت نماز مغرب و عشاء کے فریضہ کی ادائیگی کے بعد مسجد شعبان سے خارج ہوہی رہے تھے کہ آپ کو گرفتار کر کے بافت کرمان میں جلاوطن کردیا گیا۔


اس کے بعد آپ کی جلاوطنی کا مرکز زنجان تھا اور آپ کا قیام 1348 ھ ش تک طولانی رہا اور اس کے بعد اپنے وطن واپس آگئے۔


اس عظیم مجاہد کی مجاہدتوں کے لوگوں اور امام امت کی قیادت کو مثمر ثمر بنانے میں برسوں لگ گئے اور 22/ بہمن 1357 ھ ش کو یہ مقابلہ رنگ لایا اور اسلامی انقلابی منحوس پہلوی حکومت پر کامیاب ہوا۔


وہ شہر تبریز کے سب سے پہلے امام جمعہ معین کیے گئے اور جمہوری اسلامی کے سب سے پہلے شہید محراب کے نام سے موسوم ہوئے۔