احیائے فکر امام خمینی[رح]:

منحوس اسرائیل، آپ کی فکری اقدار کو نیست کرےگا

آپ علمائے دین، فرقہ بہائیت اور اسرائیل کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کریں تا بروقت سد باب کرسکیں۔ آج اگر ہم خاموش کنارے بیٹھ گئے تو سب کچھ کھو دیں گے۔

ID: 43311 | Date: 2016/02/24

صدام، بڑی طاقتوں کی زد میں، ایران پر حملہ کیا اور منحوس اسرائیل کو موقع ملا تاکہ نیل سے فرات تک قبضے کی پالیسی کو آگے جاری رکھ سکے۔


صحيفه نور، ج18، 21/مئی/1983۔


علاقے میں اسرائیل اور مصری حکومت ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر اسلام اور مسلمانوں کی بلند فکری اقدار کو نیست کرنے کے درپے، ایک مرکزی طاقت تشکیل دی ہیں۔ میں برسوں پہلے سے سامراجی صہیونی پالیسیوں کے خطرات کے متعلق عالم اسلام کو خبردار کرتا آ رہا ہوں۔ آج بھی ان لوگوں سے پہلے سے کہیں زیادہ، حریت پسندوں اور ایران میں انقلاب اسلامی کےلئے خطرات درپیش ہیں۔ لہذا ملل عالم کو چاہئے کہ اس ناپاک سازش اور عزائم کا ڈٹ کر مقابلے کریں۔


صحيفه نور، ج14، ص63، 11/02/1981۔ 


اسلامی ریاستوں کو متوجہ ہونا چاہئے کہ فساد کا جرثومہ، اسرائیل کا خطرہ پوری مشرق وسطی کو لاحق ہے۔ استعمار کا پالیسی ہے کہ آپ کا زرخیز اراضی پر چنگل جمالے اور ہماری خلاصی کا واحد راہ یہ ہے کہ جانفشانی اور استقامت و اتحاد کے ذریعے، دشمن کا سینہ چاک کر ڈالیں نیز تیل کو ان کے خلاف بطور حربہ استعمال میں لیا جائے اور کالا سونا ان تک نہ پہنچنے دیں۔


صحيفه نور، ج1، ص92، 16/8/52


غاصب اسرائیل کی نگاہ اور خطرہ، اسلام کی جڑوں پر ہے، لہذا ہم سب پر فرض ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس غدود، ام الفساد کو رفع دفع کریں نیز مدافعین تک مل جل کر مدد پہنچا دیں تو اس راہ زکوات اور صدقات بھی صرف کرنا جائز ہے۔


صحيفه نور، ج1 ص144، 26/اگست/1968۔ 


آپ علمائے دین، فرقہ بہائیت اور اسرائیل کے حوالے سے لوگوں کو آگاہ کریں تا بروقت سد باب کرسکیں۔ آج اگر ہم خاموش کنارے بیٹھ گئے تو سب کچھ کھو دیں گے۔


صحیفہ نور، ج1 ص244۔ 


یہ بات معما کی طرح ہے کہ تمام اسلامی حکام اور اقوام مسلمہ جانتی ہیں کہ درد کیا ہے اور کہاں سے ہے؟! سب کو یہ بھی معلوم ہے کہ آپسی اختلافات، نابودی سے مترادف ہے یہاں تک کہ غاصب اسرائیل ہمارے سروں پر آ کھڑی ہے! اور ۔۔۔ اس کے باوجود یہ سب غاصبوں کے مقابل میں بے بس اور زبوں و ذلیل ہیں، آخر یہ کیوں؟!!


اس معمے کا جواب اگر آپ نے دریافت کیا تو ہمیں بھی بتا دیں۔


امام خمینی(رح)، صحيفه نور،ج8، ص235