مجهے یاد ہے میں ایک دن امام کے پاس تها اور آپ مجه سے ایک عارف کا قصہ بیان کررہے تهے کہ اس وقت اس عارف کا نام یاد نہیں ہے۔ امام نے فرمایا: اس عارف کا آخری وقت تها، اس نے خلوت اختیار کررکهی تهی، اس نے دیکها کہ تمام تعلقات کو ختم کرکے اور ہر ایک سے رشتہ توڑ کر اپنے معبود حقیقی کے پاس جانے کے لئے تیار ہے اور اب ایک چیز علاوہ جو معبود حقیقی سے ملاقات کے لئے مانع ہے کوئی دلبستگی نہیں ہے اور وہ ایک بچہ ہے جو اس کے گهر میں تها جس سے وہ بہت محبت کرتا تها اور اس بچے کی محبت اس کو سفر پر جانے اور معبود حقیقی کی ملاقات سے مانع تهی۔ مدتیں گزر گئیں تب کہیں جاکر یہ بات میری سمجه میں آئی، امام کوئی بهی بات بلاوجہ نہیں کرتے تهے۔ وقت گزرتا رہا یہاں تک کہ امام کی بیماری کے ایام آئے اور ڈاکٹر بهی گهر والوں سے کہتے تهے کہ زیادہ سے زیادہ امام سے گفتگو کریں اور اس طرح سے انہیں سرگرم رکهیں تاکہ امام کے اندر کوئی حرکت اور تبدیلی پیدا ہو اور اسی سے ان کی حالت بہتر ہوگی۔ ان ایام میں ایک دن امام کی خدمت میں پہنچا دیکها کہ بہت زیادہ مضمحل اور بے حال ہیں۔ اس لئے کہ ڈاکٹروں کی باتوں پر عمل ہو اور امام کو بهی خوش حال کروں، میں نے کہا: آقا علی کو آپ کے پاس لاوں؟ فرمایا نہیں۔ نہ لاو اس کو اذیت ہوگی۔ بچہ ناخوش ہوگا۔ بہرحال باصرار گیا علی کو لے کر آیا بلند کیا۔ بچے نے آقا کے رخسار کو چوما ۔ دیکها کہ ایک قطرہ آنسو امام کی آنکه میں تیر رہا ہے، لیکن امام نے علی کو نہیں چوما۔ اس سے پہلے کبهی ایسا نہیں ہوا تها کہ امام نے علی کا بوسہ نہ لیا۔ ہو، اس سے پہلے جب بهی علی کو امام کے پاس لے جاتا تها امام علی کے بوسے لیتے تهے، اس سے پیشتر ہمیشہ علی کے بارے میں پوچها کرتے تهے اور فرماتے تهے کہ اگر علی بیدار ہے اس کو میرے پاس لاو۔ کیا ہوگیا کہ وفات سے دو روز قبل فرمارہے ہیں علی کو اسپتال لے کر نہ آو اس کو اذیت ہوگی۔ اسی وقت سے متوجہ ہوا کہ حضرت نے جو اس عارف کا قصہ بیان فرمیاا تها بات کچه اور تهی، عارف کا قصہ بیان کرنا بلاوجہ نہ تها اور وجہ بالکل صاف تهی چونکہ حضرت امام کو اپنے سفر آخرت کا پورا یقین تها چاہتے تهے کہ آخری ایام میں آخری تعلق کو بهی اپنے اندر سے ختم کردیں- ڈاکٹر فاطمہ طباطبائی، سایٹ جماران