انقلاب کا بیانیہ اور نیا عالمی نظام

انقلاب کا بیانیہ اور نیا عالمی نظام

ان تمام اجزاء کو اسلامی تہذیب کی تعمیر کے تناظر میں ضروری سمجھا جاتا ہے

تحریر: محمد مہدی ایمانی پور

 

انقلاب اسلامی کی 45ویں فجر یعنی 45 ویں سالگرہ  کی آمد آمد ہے۔ یہ ایام اس الہیٰ مظہر اور عصری دنیا کے بے مثال واقعہ کی نوعیت کا مطالعہ اور تجزیہ کرنے کا ایک مناسب موقع ہے۔ اس سلسلے میں جن زاویوں کا سنجیدگی سے جائزہ لیا جانا چاہیئے، ان میں سے ایک "اسلامی انقلاب ایران" اور "نیو ورلڈ آرڈر" کے درمیان تعلق ہے۔ آج دنیا جن حالات سے روبرو ہے، اس کے مطابق یہ تشویش گذشتہ سالوں کے مقابلے میں بہت زیادہ مضبوط ہے۔ اس سلسلے میں چند نکات ہیں، جن پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔

 

امام خمینی (رح) کی قیادت میں ایرانی اسلامی انقلاب کی فتح کے بعد، بہت سے نظریہ سازوں نے مغربی کلاسیکی فکر کی روشنی، عام تصورات اور مفروضوں کی بنیاد پر اس انقلاب کے نظریہ وجود کے بارے میں تشریح کرنے کی کوشش کی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ایرانی انقلاب اور دیگر عالمی انقلابات کے درمیان تقابلی جائزہ کے نتیجے میں کسی حتمی رائے تک نہیں پہنچ سکے۔۔ تھیڈا اسکاچپل اور مشیل فوکو جیسے مفکرین نے اعتراف کیا کہ ایران کے اسلامی انقلاب کی نوعیت اور اس سے پیدا ہونے والی صورت حال کو کلاسیکل اور حتیٰ مابعد جدید نظریات کے فریم ورک میں پرکھا نہیں جایا جا سکتا۔

 

مسئلہ بہت واضح ہے۔ ایران کا اسلامی انقلاب ایک نئی اسلامی تہذیب کا پیامبر ہے اور اس تہذیب کی باقاعدہ بنیادیں اور اصول ہیں۔ ان میں سے ایک اصول نفی سبیل کا حکم ہے اور دوسرا طاغوت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا ہے۔ امت اسلامی اور امت واحدہ کی تشکیل ان دو فکری اور فطری اجزا کے امتزاج کا نتیجہ ہے۔ مزاحمت کا مکالمہ بھی انہی اصولوں کی بنیاد پر تشکیل پاتا ہے۔ یہ نظریہ نتیجہ خیز ہے اور جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے، اس کا  کسی ایک عبوری اور غیر مقامی کردار نہیں ہے، بلکہ اس کا دائرہ لامحدود اور گہرا ہے، دوسرے لفظوں میں زمان و مکان سے ماورا ہے۔

 

دوسرا اہم نکتہ خطے میں موجود مزاحمت کا بیانیہ اور اس کی تشکیل، وسعت اور گہرائی میں اسلامی انقلاب کے کردار کو بنیادی کردار حاصل ہے ۔ بنیادی طور پر مزاحمتی محاذ کی تشکیل اور صیہونی و امریکی دشمن کے خلاف اس کی مشترکہ کامیابی ان اصولوں پر انحصار کا نتیجہ ہے، جسے مغرب جان بوجھ کر سمجھنے میں دلچسپی نہیں رکھتا۔ مزاحمت کا بیانیہ اور اس کے مشتقات، جیسے "تسلط کو قبول نہ کرنا"، "سچائی کی راہ میں استقامت" اور "فکری آزادی" مستقبل قریب میں "نئے عالمی نظام" کی تشکیل کا پیش خیمہ ہیں۔ اس بیانیے کے نقاط مغربی نظام سے بالکل متصادم ہیں اور بلا شک و شبہ آج کی دنیا میں مبینہ طاقت کے تعلقات کو متاثر کرتے ہیں۔

 

تیسرا اور آخری نکتہ اس عمل اور بیانیہ کی مستقبل کے بارے میں پیش بینی ہے۔ اس قیمتی دستاویز میں جس کی وضاحت پانچ سال قبل رہبر انقلاب اسلامی نے "گام دوم" کے عنوان سے بیان کی تھی، جس میں استحکام، سلامتی اور ایران کی ارضی سالمیت کا تحفظ، اہم اور اقتصادی انفراسٹرکچر کی تشکیل جیسے مقاصد کا زکر ملتا ہے۔ گام دوم میں لوگوں کی نظام کے معاملات میں زیادہ سے زیادہ شرکت، زیادہ سے زیادہ سیاسی وژن کو فروغ دینا، عوامی سہولیات کی تقسیم میں انصاف کے پلڑے میں اضافہ، معاشرے میں روحانیت اور اخلاقیات میں نمایاں اضافہ وغیرہ شامل ہیں۔

 

ان تمام اجزاء کو اسلامی تہذیب کی تعمیر کے تناظر میں ضروری سمجھا جاتا ہے۔ اس لیے گام دوم کے بیانیے کو اسلامی جمہوریہ ایران کے خصوصی کردار کے ساتھ جدید اسلامی تہذیب کے مکمل ادراک کا پیش خیمہ سمجھا جاتا ہے۔ بین الاقوامی تعلقات کے میدان میں موجودہ پیشرفت (جس نے غزہ کی جنگ اور صہیونیوں کے جرائم کے ساتھ عالمی محاذ آرائی کے دوران آج خود کو اچھی طرح سے دکھا دیا ہے) کے بارے میں عالمی بیداری اور بیداری کا مطلب یہ ہے کہ یہ تحریک نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ ترقی کی منزلیں طے کر رہی ہے۔ ایک ایسی مقدس تحریک جس کے اختتامی نقطہ یا جس کے رکنے کا تصور بھی محال ہے۔

ای میل کریں