تحریر: توقیر کھرل
اہلِ کوفہ، جمل، صفین، نہروان کی جنگوں میں بہت سے قیمتی جنگجو گنوا چکے تھے۔ اِن جنگوں سے نفسیات پر گہرے اثرات تھے۔ زیاد ابن ابیہ سانحہ کربلا سے دس سال پہلے والی کوفہ بنا۔ یہ ابن زیاد کا باپ تھا۔ اپنے دورِ حکومت میں شیعان علیؑ کو اذیتیں دیں اور قتلِ عام کروایا۔ گذشتہ دس سالوں سے لیکر کربلا ہونے تک (40 ہجری سے 60 ہجری) کوفہ میں شیعانِ علی کا بے دریغ قتل کیا گیا۔ بقول طبری، کربلا سے دس سال پہلے تک (50ہجری تک) کوفہ میں ایک لاکھ شیعوں کو قتل کیا گیا۔ 50 ہزار شیعان علیؑ، خراسان، شام اور دوسرے شہروں میں جلاوطن کئے گئے۔ حضرت عثمان بن عفان ؓ کے قتل کے بعد ان کے انتقام کی تحریک کا آغاز ہوچکا تھا، جس پر شیعانِ علی کو مطعون کیا جاتا تھا(مطعون یعنی رسوا، طعنہ طنز یا توہین)۔ سانحہ کربلا کے بعد بھی حضرت عثمانؓ کے قاتلوں کے خلاف تحریک جاری رہی اور یا لثارات العثمان کا نعرہ بلند کیا گیا۔
کوفہ میں چند ہی افراد رہ گئے تھے، جو حضرت علی ؑ کو بلافصل امام مانتے تھے، یہ غیر سیاسی شیعانِ علی تھے۔ کچھ افراد شیخین کو خلفاء مانتے تھے اور سیاسی شیعہ تھے، یہ فوجی اور جنگجو تھے، جہاں اقتدار ملتا تھا، وہیں کے ہوکر رہ جاتے تھے۔ یہی افراد تھے، جو امام حسینؑ کو بلوا کر اقتدار کے مزے لوٹنے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ کمزور عقائد، نظریاتی عقائد اور حاکم کے حکم کی اطاعت پر سر جھکا لیتے تھے۔۔ المختصر کوفہ میں تین طبقات تھے، شیعانِ اموی، شیعان علی اور ان میں شیعان علی 4 ہزار سے زیادہ نہیں تھے۔ ان سب کو ابن زیاد نے قید کر دیا تھا۔ کوفہ چونکہ فوجی چھاونی تھا۔ فوجیوں میں بعض لشکرِ یزید میں مفاد کی خاطر شامل ہوئے اور جہنمی قرار پائے جبکہ کچھ فوجی انعام و اکرام کی خاطر حصہ بنے۔ بعض فوجیوں کو مذہبی جانبداری کی بجائے انعامات سے غرض تھی۔
سوال یہ ہے کہ حضرت مسلم بن عقیل سے امام حسین کا ساتھ دینے کا عہد کرنے والوں نے عہد شکنی کیوں کی۔؟ وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حاکمِ کوفہ نے اپنے باپ کی طرح جبر سے اہلِ کوفہ کو فوج میں شمولیت پر مجبور کیا۔ کوفہ میں آنے والے کسی غیر کوفی کو آنے کی اجازت نہیں تھی۔ فوج اور غیر کوفیوں کو کوفہ شہر سے نکال لیا گیا تھا۔ جبر کی بنیاد پر ابن زیاد نے کوفہ کے جنگجو افراد کو کوفہ سے کربلا کی طرف روانہ کیا تھا۔ بیشتر فوجی بھاگ گئے، وہ امام حسین سے جنگ نہیں کرنا چاہتے تھے، روپوش ہوگئے یا راستے سے فرار ہوئے۔ 400 کوفی فوجی کربلا پہنچے اور ان میں سے بعض افراد جو دس محرم کی ظہر تک امام حسین ؑکے ساتھ شامل ہوئے، ان کی تعداد 15 بتائی جاتی ہے۔
یہاں پر اس امر کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ لشکر یزید کی تعداد 9 لاکھ نہیں بلکہ 30 ہزار کے لگ بھگ ہے۔ ان میں بڑی تعداد شام سے تھی۔ ابن زیاد کی پوری کوشش تھی کہ لوگ لشکر یزید کا حصہ بنیں اور امام حسین ؑکا ساتھ نہ دیں۔ جب امام حسینؑ کربلا پہنچے تو حضرت حبیب ابن مظاہر نے قبیلہ بنی اسد سے مدد مانگی، جس پر وہ سب تیار ہوگئے مگر لشکر یزید کے سپہ سالار نے ایک لشکر بھیج کر انہیں کربلا نہ پہنچنے پر مجبور کیا اور وہ گھروں کو لوٹ گئے۔۔ یہی وہ وقت تھا، جب بعض کوفیوں نے کرفیو اور جبر کی چیرہ دستی کے باوجود خود کو کربلا پہنچایا۔ اگر ابن زیاد کا جابرانہ کرفیو نہ ہوتا تو کربلا میں امام حسین کے لشکر کی تعداد 163 سے بھی زیادہ ہوتی۔
خطوط کتنے لکھے گئے؟
امام حسین کو خطوط لکھ کر کوفہ کی دعوت دینے والے اکثر منافقین تھے۔ ہر خط ایک، دو یا چار افراد نے مل کر لکھے۔ طبری کے بقول خطوط کی تعداد 53 ہے۔ سید ابن طاؤس نے خطوط کی تعداد 12 ہزار بیان کی ہے، لیکن محققین نے خطوط کی تعداد کے 150 ہونے کو حقیقت کے قریب ترین قرار دیا ہے۔ سبطِ بن جوزی نے ابنِ اسحق سے بھی 150 خطوط کی روایت نقل کی ہے۔
کوفیوں کو بے وفا کس نے لکھا؟
یزید نے 700 کاتب/مورخ خریدے ہوئے تھے۔ ابتدائی مورخین کی بڑی تعداد بنی امیہ، بنو عباس اور غیر شیعان علی سے ہے۔ اس لئے انہوں نے دربار کی خوشنودی اور تاریخی مغالطوں پر مبنی تاریخ میں اہلِ کوفہ کو مطعون کیا، انہیں غدار اور بے وفا لکھا۔ اس کی وجہ ان کا کوفہ سے عناد بھی تھا اور اتنا جھوٹ بولا گیا کہ کوفہ کی شجاعت اور خدمات کو نظر اندار کرتے ہوئے انہیں تاریخ میں بے وفا سے بدنام کر دیا۔ بے وفائی ضرب المثل کی طرح کوفہ سے منسوب کر دی گئی۔ کوفہ سے بے وفائی کی کالک ہٹا کر روشن چہرہ سامنے لاکر تاریخ کے سچ کو سامنے لانے کی ضرورت ہے۔