امام خمینی (رح) کے الفاظ میں قرآن کی تلاوت اور غور و فکر کی اہمیت

امام خمینی (رح) کے الفاظ میں قرآن کی تلاوت اور غور و فکر کی اہمیت

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جب امام خمینی نجف میں تھے تو ہر تین دن بعد ایک دفعہ قرآن ختم کرتے تھے

حضرت امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ کو قرآن کا بہت شوق تھا۔ دن اور رات میں خاص طور پر نماز شب میں قرآن کی تلاوت کرتے تھے اور ہر موقع ملا قرآن کی تلاوت میں مشغول رہتے تھے۔ جب وہ پیرس میں تھے، جب صحافی ان کے پاس انٹرویو کے لیے آتے تھے، تو وہ اپنے کیمرے تیار کرنے کے لیے عموماً 10/ یا 15/ منٹ تک انتظار کرتے تھے، اس موقع پر امام قرآن کی تلاوت کرتے تھے۔

 

رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں جب امام خمینی نجف میں تھے تو ہر تین دن بعد ایک دفعہ قرآن ختم کرتے تھے اور جب جماران میں ہوتے تھے تو بڑھاپے کی وجہ سے  ہر دس دن میں ایک بار قرآن ختم کرتے تھے۔ سال میں ہر مہینے ایک بار قرآن ختم کرتے تھے۔ وہ ہمیشہ قرآن سے مانوس تھے۔ قرآن کا ایک جزء، آٹھ حصوں میں اور ہر حصہ کو ایک خاص وقت پر پڑھتے تھے۔ کبھی کبھی قرآن کے کسی جملے (آیت) پر دیر تک توقف کرتے تھے۔

 

قرآن کریم سے مانوس ہونے کے سلسلے میں امام کی پہلی نصیحت قرآن کے معانی پر غور و فکر کرنے کا مسئلہ ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن میں تفکر اور غور و فکر کے اثر اور عمل کے بارے میں اپنے ایک گرانقدر بیان میں فرمایا: "جو شخص قرآن کے معانی پر غور و فکر کرے گا، اس کے دل پر اثر ہو گا اور وہ رفتہ رفتہ متقی کا مقام حاصل کر لے گا۔ اور اگر خدا کی توفیق ہو تو وہ اس مقام سے بھی گزر جائے گا اور اس کا ہر عضو، جوہر اور قوت آیات الہی میں سے ایک آیت بن جائے گی۔ اور شاید مکتوباتِ الٰہی کے عناصر اور جذبات اسے بے ہوش کر دیں اور اسی دنیا میں اقرأ اور إصعد کا حقیقت جانے تاکہ وہ اپنے متکلم سے براہِ راست کلام سن سکے اور جو آپ اور میری وہم و گمان میں نہ آئے، یہ بن جائے۔

 

امام خمینی (رح) نے کئی بار اس بات پر تاکید کی کہ عملی طور پر مختلف شعبوں میں کتاب الٰہی کو نظر انداز کیا گیا ہے اور قرآن کو معاشرے میں چھوڑ دیا گیا ہے۔ امام خمینی رحمۃ اللہ علیہ نے معاشرے میں ثقلین (قرآن اور اہل بیت) سے دوری اور استعمار کی طرف سے ان مقدمات کے ساتھ بدسلوکی اور اس انحطاط کی وجہ سے ہونے والے مظالم اور ناانصافیوں کی شکایت کی اور سب کو قرآن کی دعوت دی۔ اور وہ کام کرنے کے طریقے بتاتے تھے جیسے قرائت، تلاوت کرنا، قرآن پر عمل کرنا وغیرہ اور کہیں وہ کہتے تھے: ہم قرآن کو قبرستانوں سے بچانے آئے ہیں۔ (صحیفه امام،ج۲۱،ص۳۹۶)

 

معلوم ہونا چاہیے کہ اگر ہم نے قرآن کے احکام اور تعلیمات کو اس پر عمل کرتے ہوئے اور اس کی حقیقت کا ادراک کر کے اسے زندہ نہ کیا تو اس دن ہم رسول خدا کو جواب دینے کے قابل نہیں ہوں گے۔ آپ کے مقاصد اور دعوتوں سے منہ موڑنے سے بڑھ کر کون سی توہین ہے؟ قرآن اور اس کے اہل کی تعظیم کرنا، جو اہل بیت عصمت ہیں، نہ صرف اس کے غلاف اور ان کے مقدس مزار کو چومنا ہے؛ یہ عزت و تکریم کا ایک ضعیف قسم ہے، اگر ہم اس کے احکام اور ان کے فرمودات پر عمل کریں تو قابل قبول ہے۔ ورنہ مذاق اور کھیل کی طرح ہے۔ (آداب الصلوة، ص 210)

ای میل کریں