امام علی نقی علیہ السلام کی زندگی پر طائرانہ نگاہ
مولانا سید علی ہاشم عابدی
حضرت ابوالحسن امام علی نقی علیہ السلام ہمارے دسویں امام ہیں ، آپؑ پانچ رجب المرجب (دوسری روایت کے مطابق 15 ؍ ذی الحجہ) سن 212 ہجری کو مدینہ منورہ کے قریب صریا نامی قریہ میں پیدا ہوئے، یہ وہی قریہ ہے جسے امام موسیٰ کاظم علیہ السلام نے آباد کیا تھا۔ اور 3؍ رجب المرجب 254 ہجری کو سامرا میں معتز عباسی کے زہر دغا سے شہید ہوئے۔
آپؑ کے والد ماجد ہمارے نویں امام حضرت جواد الائمہ امام محمد تقی علیہ السلام ہیں اور والدہ ماجدہ جناب سمانہ سلام اللہ علیہا تھیں ۔ خود امام علی نقی علیہ السلام نے اپنی والدہ ماجدہ جناب سمانہ سلام اللہ علیہا کے سلسلہ میں فرمایا ‘‘أُمِّي عَارِفَةٌ بِحَقِّي، وَ هِيَ مِنْ أَهْلِ الْجَنَّةِ، لَا يَقْرَبُهَا شَيْطَانٌ مَارِدٌ، وَ لَا يَنَالُهَا كَيْدُ جَبَّارٍ عَنِيدٍ، وَ هِيَ مَكْلُوءَةٌ بِعَيْنِ اللَّهِ الَّتِي لَا تَنَامُ، وَ لَا تَتَخَلَّفُ عَنْ أُمَّهَاتِ الصِّدِّيقِينَ وَ الصَّالِحِينَ’’ میری والدہ ماجدہ کو میرے حق (حق امامت) کی معرفت ہے، وہ جنّتی خاتون ہیں، سرکش شیطان ان سے قریب نہیں ہو سکتا اور نہ ہی کسی مکار کی مکاری کی ان تک رسائی ممکن ہے، وہ چشم خدا کے زیر نظر ہیں جو کبھی غفلت کا شکار نہیں ہوتی۔ صدیقین اور صالحین کی ماؤوں اور ان میں کوئی فرق نہیں ہے۔ امام کا کلام ، کلاموں کا امام ہوتا ہے کیوں کہ وہ وہی کہتے ہیں جو اللہ و رسول ؐ کہتے ہیں ۔ امام علی نقی علیہ السلام کے مذکورہ فقرات سے جناب سمانہ سلام اللہ علیہا کی فضیلتوں اور عظمتوں کا بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
ہمارے دسویں امام ؑ کا نام نامی اسم گرامی علیؑ، کنیت ابوالحسن ثالث اور القاب نقی، ہادی، طیب ، امین ، ناصح اور مرتضیٰ ہے۔ ماہ ذی القعدہ کے آخری دن سن 220 ہجری کو جب آپؑ کے والد ماجد حضرت امام محمد تقی علیہ السلام کی بغداد میں ام الفضل کے ذریعہ معتصم عباسی کے زہر دغا سے شہادت ہو ئی تو منصب امامت کی ذمہ داری آپؑ پر آئی ۔ اس وقت آپ ؑ کی عمر مبارک محض سات سے آٹھ برس تھی۔ آپ ؑ کے دورہ امامت میں چھ عباسی حکمرانوں نے حکومت کی ۔ معتصم، واثق، متوکل، منتصر، مستعین اور معتز نے یکے بعد دیگرے تخت حکومت پر بیٹھے۔ اگرچہ سب کے سب ظالم و جابر اور سنگ دل تھے لیکن متوکل ان سب میں سب سے زیادہ ظالم وجابر اور دشمن اہلبیتؑ تھا۔ دوسرے عباسی حکمرانوں کے بہ نسبت متوکل کے دور حکومت میں شیعہ زیادہ سختی میں تھے۔ حکومت کی جانب سے ملنے والی تمام سہولتیں شیعوں کے لئے بند کر دی گئیں، اسے اگر معلوم ہوتا کہ فلاں شخص شیعہ ہے تو وہ اسے قتل کرا دیتا اور مال کو ضبط کر لیتا ، یہاں تک کہ متوکل نے مصر کے گورنر کو حکم دیا کہ اگر ایک شیعہ اور غیر شیعہ میں اختلاف ہو تو غیر شیعہ کی ہی بات سنی جائے اور اسی کے حق میں فیصلہ دیا جائے۔ متوکل ملعون امیرالمومنین علیہ السلام کا اس قدر شدید مخالف اور دشمن تھا کہ اس کے دربار میں درباری مسخرے امیرالمومنین علیہ السلام کی نقل اتارتے اور مذاق اڑاتے تو وہ انہیں انعامات سے نوازتا ، اسی طرح اس ملعون متوکل نے مظلوم کربلا امام حسین علیہ السلام کی قبر مبارک پرحملہ کرتے ہوئے وہاں موجود تمام عمارتوں کو منہدم کرا دیا اور زیارت پر پابندی عائد کر دی۔ روایت میں ہے کہ ایسے پر آٓشوب دور میں جب امام علی نقی علیہ السلام بیمار ہوئے تو باوجود اس کے کہ آپؑ حجت خدا ہیں ، ولایت تکوینی رکھتے ہیں کہ اگر صرف ارادہ کر لیتے تو رو بہ صحت ہو جاتے لیکن آپؑ نے ایک شخص کو زاد راہ دی اور فرمایا: کربلا جاؤ ، زیارت کرو اور وہاں میری صحت یابی کی دعا کرو۔ تا کہ لوگ زیارت امام مظلوم ؑ سے کبھی غافل نہ ہوسکیں ۔
امام علی نقی علیہ السلام کا دور امامت 34 برس رہا ، 220 ہجری سے 233 ہجری اور بعض دیگر روایات کے مطابق 243 ہجری تک آپ ؑ مدینہ منورہ میں رہے اور باقی عمر سامرہ میں بسر کی۔ آخر کے اماموں کی زندگی کا مطالعہ کرنے سے پہلے یہ نکتہ ہمارے ذہن نشین رہے کہ جیسے جیسے منجی عالم بشریت حضرت ولی عصر امام مہدی عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف کی ولادت با سعادت کے ایام نزدیک آ رہے تھے ویسے ویسے ہمارے اماموں پر حکومت کی جانب سے سختیاں بھی بڑھ رہی تھیں ، کیوں کہ ہر ظالم حاکم جانتا تھا کہ جس مولود کی بشارت رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام نے دی ہے وہ فخر ابراہیمؑ و موسیٰؑ ہے وہ نہ صرف ایک نمرود و فرعون بلکہ دنیا کے تمام نمرودوں اور فرعونوں کا تختہ الٹ دے گا۔ لہذا متوکل نے امام علی نقی علیہ السلام کو مدینہ منورہ سے بلا کر سامرہ میں فوجی چھاؤنی میں رکھا تا کہ نزدیک سے مکمل آگاہی رہے۔ سامرہ میں لوگوں سے ملاقات پر پابندی تھی کہ کوئی آپؑ سے ملاقات نہ کر سکے۔ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ جب سختیاں اس قدر شدید ہوں تو کار ہدایت کتنا مشکل ہو گا۔ دوسری جانب طرح طرح کے فرقے اور نظریات بھی وجود میں آ رہے تھے خصوصاً لوگوں کو اہلبیت اطہار علیہم السلام سے دور رکھنے کی ہر ممکن کی کوشش کی جا رہی تھی اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کے عظمتوں کو کم کرنے کی ناکام کوششیں جاری تھیں ۔ امام علی نقی علیہ السلام نے ایسے عالم میں زیارت جامعہ کبیرہ تعلیم کر کے رہتی تک لوگوں کو ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی فضیلتوں اور عظمتوں سے واقف کرایا ۔ نیز جب آپؑ مدینہ سے سامرہ تشریف لا رہے تھے تو راستے میں نجف اشرف میں اپنے جد امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کے لئے بھی تشریف لے گئے۔ آپؑ نے جس دن امیرالمومنین علیہ السلام کی زیارت کی وہ روز غدیر 18 ذی الحجہ تھا۔ یہ زیارت غدیر آپؑ ہی کی تعلیم کردہ زیارت ہے جسمیں آپؑ نے امیرامومنین علیہ السلام کی 150 فضیلتوں کو بیان کیا ہے۔ ان بیان فضائل سے جہاں مقصرین کی سازشیں ناکام ہوتی ہیں وہیں غالیوں کی گمراہی بھی واضح ہوتی ہے۔
اس پر آشوب ماحول میں جب لوگوں کے لئے حجت خدا سے ملاقات ممکن نہیں تھی تو آپؑ نے مختلف علاقوں میں اپنے نمایندے اور وکیل معین کئے اور مومنین کو حکم دیا کہ شرعی رقومات ان کو دیں اور اپنے دینی سوالات بھی انہیں سے پوچھیں کیوں کہ وہ جو بھی بتائیں گے وہ میری ہی بات ہوگی۔ اس طرح نمایندگی اور وکالت جہاں وقت کی ضرورت تھی وہیں شیعوں کی عصر غیبت میں حصول رہنمائی کی تربیت بھی تھی کہ جب بارہویں امام ؑ غیبت اختیار کر لیں تو امت اپنے کو بغیر سرپرست کے نہ سمجھے بلکہ فقہاء اور مراجع کرام کی جانب رجوع کرے۔
امام علی نقی علیہ السلام کے معجزات و کرامات کثرت سے زخیم کتابوں میں موجود ہیں ۔آپؑ کے صحابی ابو ہاشم جعفری کا بیان ہے کہ ایک بار میں امامؑ کے ساتھ جا رہا تھا۔ قرض اور فقر سے دل ملول تھا کہ امام علی نقی علیہ السلام نے زمین پر تلوار ماری اور مجھے حکم دیا کہ اٹھا لو ، میں نے اٹھا یا تو وہ سونا تھا ، دل مطمئن ہو گیا کہ قرض ادا ہو جائے گا لیکن خرچ کی فکر پھر بھی دامن گیر تھی کہ امامؑ نے دوبارہ زمین پر تلوار ماری اور حکم دیا کہ اٹھا لو، اٹھایا تو چاندی تھی۔ آپؑ نے فرمایا ابوہاشم اب اطمینان حاصل ہوا۔ انہیں ابوہاشم سے روایت ہے کہ ایک سندھ کا رہنے والا امام نقی ؑ کی خدمت میں آیا اور اس نے عربی زبان میں سوال کیا تو آپ ؑ نے اسے سندھی زبان میں جواب دیا ۔ مجھے بہت تعجب ہوا ، جب وہ چلا گیا تو میں نے تعجب کا اظہار کیا ۔امام ؑ نے زمین پر پڑی کنکری کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اٹھانے کا حکم دیا، امام ؑ نے اس کنکری پر تھوڑا سا لعاب دہن لگا کر فرمایا کہ اسے اپنے دہن میں رکھ لو ۔ میں نے جیسے ہی دہن میں رکھا تو میں بھی 73 زبانوں کا عالم ہو گیا۔
ایسا نہیں کہ ہمارے ائمہ علیہم السلام کا لطف و کرم صرف اپنے شیعوں کے شامل حال تھا بلکہ اگر غیر بھی متمسک ہوئے تو وہ بھی سرفراز ہوئے۔ یوسف بن یعقوب نصرانی کو آپؑ سے توسل کے سبب متوکل کے شر سے نجات ملی اور خود متوکل کی ماں نے جب آپؑ سے توسل کیا تو متوکل کو لا علاج بیماری سے نجات ملی۔
خدا وند عالم ہمیں اپنی، اپنے رسولؐ اور ائمہ ہدیٰ علیہم السلام کی معرفت عطا فرمائے۔