تحریر: غلام رضا خارکوہی
ہر رونما ہونے والا انقلاب اپنے سماجی اور انسانی ماحول کو تبدیل کرنے کے درپے ہوتا ہے اور اسے پورے معاشرے یا معاشرے کے ایک حصے کی نفسیات اور شعوری سطح میں گہری تبدیلی کے ذریعے حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ مفہوم اس وقت مزید وسعت اور گہرائی پیدا کر لیتا ہے جب ایک انقلاب کسی خاص مکتب فکر پر استوار ہو، خاص طور پر ایسا مکتب فکر جس کی بنیادیں الہی اور وحیانی تعلیمات پر مبنی ہوتی ہیں۔ اس مکتب فکر میں پائے جانے والے مختلف مفاہیم اور تصورات اس معاشرے میں رونما ہونے والی بنیادی اور گہری تبدیلی کا مظہر ہوتے ہیں۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو ایران میں رونما ہونے والا اسلامی انقلاب ایسی نظریاتی فضا ایجاد ہونے کا سبب بنا ہے جس پر معنویت اور روحانیت کا رنگ غالب ہے۔
شاید یہی وجہ ہے جس کے باعث معروف فرانسیسی فلسفی مائیکل فوکو نے ایران میں رونما ہونے والے انقلاب کو "بے روح دنیا کی روح" اور "روحانیت کی جانب پلٹ" قرار دیا ہے۔ اسی طرح کالر بورے اور پیئر بلانچے نے بھی ایران کے اسلامی انقلاب کو "خدا کے نام پر انقلاب" کہا ہے۔ صرف فوکو یا بلانچے یا بورے ہی ایسے مفکرین نہیں جنہوں نے ایران کے اسلامی انقلاب کو روحانیت پسند انقلاب قرار دیا ہے بلکہ گیلز کپل اور حامد الگار جیسے فلسفیوں نے بھی اپنی کتابوں "خداوند کا انتقام" اور "انقلابی اسلامی کی بنیادیں" میں نیز آصف حسین نے اپنی کتاب "ایران اسلامی" میں ایران میں رونما ہونے والے انقلاب کے ثقافتی اور روحانی پہلووں پر تاکید کی ہے اور انہیں دنیا میں رونما ہونے والے دیگر انقلابات کے مقابلے میں انقلاب اسلامی ایران کی منفرد خصوصیات کے طور پر بیان کیا ہے۔
لہذا ایران میں رونما ہونے والا انقلاب جس کیلئے انقلابی تحریک 1963ء میں امام خمینی رح کی قیادت میں آغاز ہوئی تھی "مکتب اسلام" کی بنیاد پر استوار تھا۔ ایسا مکتب جس کا حقیقی سرچشمہ قرآن کریم اور اہلبیت اطہار علیہم السلام (قرآن و عترت) ہیں۔ امام خمینی رح نے اس انقلابی تحریک کا بانی ہونے کے ناطے اپنے انٹرویوز، تقاریر اور جاری کردہ پیغامات میں ہمیشہ ان نکات پر زور دیا ہے۔ اسی طرح انقلابی تحریک میں شامل کروڑوں مرد، خواتین، بوڑھوں اور بچوں نے بھی مظاہروں کے دوران نعروں اور بینرز کے ذریعے اسلامی تعلیمات اور مفاہیم کا اظہار کیا ہے۔ یوں انقلابی تحریک کے آغاز سے کامیابی سے ہمکمنار ہونے تک اور اس کے بعد اسلامی نظام حکومت برقرار ہونے کے بعد سے آج تک اس پر اسلامی رنگ کا غلبہ رہا ہے۔
ایران میں شروع ہونے والی اس انقلابی تحریک میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرنے والی شخصیات میں سے ایک شہید آیت اللہ بہشتی کی شخصیت تھی۔ شہید آیت اللہ بہشتی انقلاب اسلامی ایران کے تھیوریشن کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ شہید بہشتی نے اکثر مواقع پر بہت واضح انداز میں اس انقلاب کے حقیقی چہرے کو بیان کیا ہے۔ ان کی نظر میں ایران کی سرزمین پر، خاص طور پر تنباکو کی تحریک کے بعد مختلف قسم کی انقلابی تحریکوں نے جنم لیا ہے۔ ان میں سے بعض تحریکیں ایک خاص علاقاے تک محدود تھیں جبکہ بعض دیگر ملکی سطح کی تھیں۔ ان تحریکوں میں دو قسم کے عوامل اور اسباب غالب رہے ہیں: 1)۔ مکتب اسلام، جو ہمیشہ زیادہ طاقتور سبب کے طور پر سامنے آتا رہا ہے، اور 2)۔ قومیت پسندی، جو کچھ حد تک ان تحریکوں میں شامل رہا ہے۔
شہید آیت اللہ بہشتی اپنی کتاب "ویژگی ھای انقلاب اسلامی" (اسلامی انقلاب کی خصوصیات) میں لکھتے ہیں: "1963ء کا سال ایرانی قوم کی انقلابی تحریکوں کی تاریخ میں ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ اس کا سبب حوزہ علمیہ قم کی ایک عظیم شخصیت تھی۔ انہوں نے اپنے شاگردوں کے ذریعے پورے ایران میں ایک عظیم طاقت ایجاد کی۔ یہ عظیم شخصیت آیت اللہ العظمی خمینی رح کی تھی جو گذشتہ ایک عرصے سے قم میں فقہ کا درس خارج دینے میں مصروف تھے۔ انہوں نے ایک مرجع تقلید ہونے کی حیثیت سے انقلابی تحریک کا پرچم اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ ان کے ساتھی بھی مختلف شہروں میں مقیم مراجع تقلید اور دینی طالب علم تھے۔ انہوں نے اسلام کا نعرہ بلند کیا اور اپنی انقلابی تحریک کو خالصتاً اسلام سے مخصوص کیا۔ ان کا مشہور جملہ ہے کہ اسلام خطرے میں ہے۔"
شہید آیت اللہ بہشتی مزید لکھتے ہیں: "امام خمینی رح نے انقلابی تحریک کیلئے دعوت کا آغاز 1946ء میں قم سے کیا۔ اس دعوت کے 17 سال بعد 1963ء میں قم میں عظیم انقلابی مظاہرہ ہوا اور قم کے مسلمان مرد و خواتین سڑکوں پر نکل آئے۔ اس مظاہرے میں باحجاب خواتین بھی لاٹھیاں اٹھائے شامل تھیں۔ میں نے اسی موقع پر دوستوں سے کہا: مبارک ہو، ہم الجزائر کی تاریخ میں پڑھتے تھے کہ باحجاب خواتین ہتھیار اٹھا کر استعمار اور استکبار کے خلاف میدان میں نکل آئی تھیں اور آج ہم قم میں اس انقلابی تحریک کی برکت سے دیکھ رہے ہیں کہ باحجاب خواتین استکبار اور ایران میں اس کے ایجنٹ کے خلاف سڑکوں پر نکل آئی ہیں۔ امام خمینی رح نے اپنی انقلابی تحریک کا آغاز علم و ایمان کے شہر قم سے کیا۔ ان کی آواز پر پوری ایرانی قوم نے لبیک کہی۔"