ڈاکٹر شھید بہشتی کی سیاسی سرگرمیاں
ڈاکٹر شھید بہشتی 1970 ء میں تہران واپس آئے اور تفسیر قرآن کا درس دینا شروع کیا اور ڈاکٹر جواد باہنر اور ڈاکٹر عقودی کے ساتھ مل کر ایران کے مدرسوں میں رائج کتابوں کی تدوین، اصلاح میں مشغول ہوگئے ۔ اس طرح اپنی مسلسل فکری اور ثقافتی انقلابی جد و جہد کے بعد 1978 ء میں علی الاعلان سیاسی میدان میں اتر پڑے اور شہید مطہری، شہید مفتح، حجۃ الاسلام ملکی اور آیت اللہ امامی کاشانی کے ساتھ مل کر ایک ملک گیر سیاسی جماعت " روحانیت مبارز تہران " کی سنگ بنیاد رکھی جس میں دوسری اہم انقلابی شخصیتیں رہبر معظم انقلاب اسلامی حضرت آیت اللہ العظمی خامنہ ای، آیت اللہ مشکینی، آیت اللہ ربانی املشی، آیت اللہ طبسی اور شہید ہاشمی نژاد و غیرہ بھی شامل ہوگئے ۔ اور پھر امام خمینی (رح) کے حکم سے باقاعدہ طور پر ایک انقلابی کونسل تشکیل پائی جس میں آیت اللہ بہشتی سرفہرست تھے ۔
چنانچہ اسلامی انقلاب کی کامیابی اور بقاء واستحکام میں شہید بہشتی کے کارنامہ کو اگر ایک جملے میں بیان کرنا چاہیں تو ہم کہہ سکتے ہیں : حضرت امام خمینی رضوان اللہ علیہ کے رفقائے کار کے درمیان شہید بہشتی نے اسلامی انقلاب کی بنیادی ترین خدمات انجام دی ہیں ۔ شہید بہشتی کی شخصیت کی جامعیت اور اسلامی علوم و فنون پر کامل تسلط کے ساتھ ہی عصر حاضر کے تمام سیاسی و نظریاتی مکاتب اور آزموں سے گہری واقفیت نیز مختلف اسلامی اور یورپی زبانوں میں تقریر و تحریر کی صلاحیت نے آپ کو دوستوں حتی بزرگوں کے درمیان بھی ممتاز کردیاتھا ۔
کسی بھی سیاسی فکری محفل و مجلس میں آپ کی موجودگی لوگوں کو ہر ایک سے بے نیاز کردیتی تھی ۔جس وقت اسلامی جمہوریہ ایران کے آئین کی تشکیل کے لئے " مجلس خبرگان " کے جلسوں میں شہید بہشتی اپنی زبان کھولتے تھے تو اسلام و قرآن کے تمام مخالفین و معاندین کی زبانیں گنگ رہ جاتی تھیں اور ان کو اپنی کمیوں کے سبب سبکی کا احساس ہوتا تھا ۔ یہی وجہ ہے دو طرح کے لوگ آپ کے وجود سے گبھراتے اور مخالفت و کینہ توزی سے لبریز تھے، ایک تو منافقین اور مشرق و مغرب سے وابستہ عناصر کا وہ گروہ تھا جو اسلامی انقلاب کی بنیادوں کا ہی مخالف تھا ۔ اور دوسرا حکومت و اقتدار کا بھوکا تنگ نظر علماء اور مفاد پرست دانشوروں کا وہ طبقہ تھا جو اپنے سیاسی مقاصد کی راب میں شہید بہشتی کو روڑا سمجھتا تھا اور سختی سے احساس کمتری کا شکار تھا ۔ چنانچہ انقلاب کی کامیابی کے ابتدائی ایام کی تاریخ اگر گہری نظروں سے مطالعہ کی جائے تو یہ حقیقت پوری طرح واضح ہوجائے گی کہ اسلامی انقلاب کے مخالف تمام گروہ، منافقین ہوں یا مشرقی سوشلسٹ اور مغربی لبرل عناصر ہر ایک کی دشمنی اور تہمتوں کا پہلا نشانہ شہید بہشتی کی ذات تھی ۔
انقلاب کے بعد، امام خمینی رضوان اللہ علیہ نے ایک اور اہم ذمہ داری شہید بہشتی کو یہ سپرد کی کہ انہیں " عدلیہ" کا سربراہ "دیوان عالی" قرار دے دیا اور شہید نے اپنی بے پناہ صلاحیتوں سے عدلیہ کو عزت و وقار عطا کردیا وہ کسی بھی عنوان سے آئین کی خلاف ورزی، چاہے وہ ملک کی کوئی بھی شخصیت کیوں نہ ہو، ہرگز قبول نہیں کرتے تھے شہید نے جس مقام اور جس حیثیت سے بھی انقلاب کی خدمت کی ہے پوری فرض شناسی کے ساتھ کام انجام دیا وہ کہا کرتے تھے کہ " ہم خدمت کے دلدادہ ہيں اقتدار کے پياسے نہيں ہيں"