امام حسن علیہ السلام کی اخلاقی خصوصیات

امام حسن علیہ السلام کی اخلاقی خصوصیات

امام حسن (ع) کی اخلاقی شخصیت ہر جہت سے کامل تھی۔ آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔

امام حسن علیہ السلام کی اخلاقی خصوصیات 

امام حسن (ع) کی اخلاقی شخصیت ہر جہت سے کامل تھی۔ آپ کے وجود مقدس میں انسانیت کی اعلی ترین نشانیاں جلوہ گر تھیں۔ 

جلال الدین سیوطی اپنی تاریخ کی کتاب میں لکھتے ہیں کہ:حسن ابن علی (ع) اخلاقی امتیازات اور بے پناہ انسانی فضائل کے حامل تھے۔ ایک بزرگ ، باوقار ، بردبار، متین، سخی، نیز لوگوں کی محبتوں کا مرکز تھے۔  ان کے درخشاں اور غیر معمولی فضائل میں سے ایک قطرہ یہاں پیش کیا جا رہا ہے:

پرہیزگاری:

آپ خداوند کی طرف سے مخصوص توجہ کے حامل تھے اور اس توجہ کے آثار کبھی وضو کے وقت آپ کے چہرہ پر لوگ دیکھتے تھے، جب آپ وضو کرتے تو اس وقت آپ کا رنگ متغیر ہو جاتا اور آپ کاپنے لگتے تھے۔  جب لوگ سبب پوچھتے تو فرماتے تھے:حقٌ علی کل من وقف بین یدی رب العرش ان یصفر لونہ و ترتعد مفاصلہ،جو شخص خدا کے سامنے کھڑا ہو، اس کے لیے اس کے علاوہ اور کچھ مناسب نہیں ہے۔ 

امام جعفر صادق (ع) نے فرمایا:امام حسن (ع) اپنے زمانے کے عابد ترین اور زاہد ترین شخص تھے۔ جب موت اور قیامت کو یاد فرماتے تو روتے ہوئے بے قابو ہو جاتے تھے۔امام حسن (ع) اپنی زندگی میں 25 بار پیادہ اور کبھی پا برہنہ زیارت خانہ خدا کو تشریف لے گئے تا کہ خدا کی بارگاہ میں زیادہ سے زیادہ ادب و خشوع پیش کر سکیں اور زیادہ سے زیادہ اجر لے سکیں۔

سخاوت:

امام حسن (ع) کی سخاوت اور عطا کے سلسلہ میں اتنا ہی بیان کافی ہے کہ آپ نے اپنی زندگی میں دو بار اپنے تمام اموال کو خدا کی راہ میں دیا اور تین بار اپنے پاس موجود تمام چیزوں کو دو حصوں میں تقسیم کیا۔ آدھا راہ خدا میں دیا اور آدھا اپنے پاس رکھا ۔ 

ایک دن آپ نے خانہ خدا میں ایک شخص کو خدا سے گفتگو کرتے ہوئے سنا وہ کہہ رہا تھا کہ خداوندا: مجھے دس ہزار درہم دے دے۔ امام (ع) اسی وقت گھر گئے اور وہاں سے اس شخص کو دس ہزار درہم بھیج دیئے۔

ایک دن آپ کی ایک کنیز نے ایک خوبصورت گلدستہ آپ کو ہدیہ کیا تو، آپ (ع) نے اس کے بدلے اس کنیز کو آزاد کر دیا۔ جب لوگوں نے اس کی وجہ پوچھی تو آپ نے فرمایا کہ خداوند نے ہماری ایسی ہی تربیت کی ہے پھر آپ (ع) نے یہ آیت پڑھی:و اذاحُيّیتم بتحيّة، فحَيّوا باحسن منھا،جب تم کو کوئی ہدیہ دے تو اس سے بہتر اس کا جواب دو۔ 

بردباری:

ایک شخص شام سے آیا ہوا تھا اور معاویہ ملعون کے اکسانے پر اس نے امام (ع) کو برا بھلا کہا۔ امام (ع) نے سکوت اختیار کیا ، پھر آپ نے اس کو مسکرا کر نہایت شیرین انداز میں سلام کیا اور کہا:اے محترم انسان میرا خیال ہے کہ تو مسافر ہے اور میں گمان کرتا ہوں کہ تم کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ اگر تم مجھ سے میری رضا مندی کے طلبگار ہو یا کوئی چیز چاہیے تو میں تم کو دونگا اور ضرورت کے وقت تمہاری راہنمائی کروں گا۔ اگر تمہارے اوپر قرض ہے تو، میں اس قرض کو ادا کروں گا۔ اگر تم بھوکے ہو تو میں تم کو سیر کر دوں گا اور اگر میرے پاس آؤ گے تو زیادہ آرام محسوس کرو گے۔

وہ شخص شرمسار ہوا اور رونے لگا اور اس نے عرض کیا:میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ زمین پر خدا کے خلیفہ ہیں۔ خدا بہتر جانتا ہے کہ وہ اپنی رسالت کو کہاں قرار دے۔  آپ اور آپ کے والد میرے نزدیک مبغوض ترین شخص تھے لیکن اب آپ میری نظر میں سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ 

مروان ابن حکم کہ جو آپ کا سخت دشمن تھا۔ آپ (ع) کی رحلت کے بعد اس نے آپ کی تشیع جنازہ میں شرکت کی، امام حسین (ع) نے پوچھا میرے بھائی کی حیات میں تم سے جو ہو سکتا تھا، وہ تم نے کیا لیکن اب تم ان کی تشییع جنازہ میں شریک اور رو رہے ہو ؟ مروان نے جواب دیا: میں نے جو کچھ کیا اس شخص کے ساتھ کیا کہ جس کی بردباری پہاڑ ( کوہ مدینہ کی طرف اشارہ ) سے زیادہ تھی۔

ای میل کریں