حضرت امام موسی کاظم(ع) کی سیاسی سیرت پر سرسری نگاہ
حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام اسی سلسلۂ ائمہ اطہار علیہم السلام کے ایک فرد تھے جنہیں خالق کائنات نے بنی نوع انسان کے لیے معیار کمال قرار دیا تھا اس وجہ سے ان میں سے ہر ایک اپنے زمانے میں بہترین اخلاق و اوصاف کا حامل تھا۔ اس میں کوئی شک نہیں ائمہ اطہار علیہم السلام میں سے ہر ایک کی بعض صفات ممتاز ہیں چنانچہ ساتویں امام حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام میں تحمل و برداشت اور غصہ کو ضبط کرنے کی صفت اتنی نمایاں تھی کہ آپ کا لقب کاظم قرار پایا،جس کے معنی غصے کو بہت زیادہ پینے والے کے ہیں۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ آپ کو کبھی کسی نے غصے اور سختی کے ساتھ بات کرتے نہیں دیکھا اور انتہائی ناگوار حالات میں بھی مسکراتے ہوئے نظر آتے تھے۔
معاشرے کے محتاجوں اور ظلم و ستم کا شکار ہونے والے افراد کی مدد کرنا ائمہ اطہار علیہم السلام کے اصولوں میں سے تھا اور اگر امام کاظم علیہ السلام کی زندگی پر سرسری نگاہ ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ(ع) ان کی مادی، اخلاقی اور روحانی مدد فرمایا کرتے تھے اور اپنے دوستوں، جاننے والوں اور قرابتداروں کے احوال سے آگاہ رہنے کے لیے کوشاں رہتے تھے اور ان سے ملنے اور ان کے مسائل حل کرنے کی کوشش فرمایا کرتے تھے تا کہ ان کے حالات سے پوری طرح آگاہ رہیں اور حتی الامکان ان کے معاشی مسائل حل کریں، امام علیہ السلام ہر موقع و مناسبت سے مسلمانوں کو مدد پہنچانے کی کوشش کرتے تھے اور عباسی سلطنت کے دور میں آپ (ع) کی اہم ترین سفارش مؤمنین اور مظلومین کی مدد کرنا تھی کیونکہ یہ چیز گناہوں کا کفارہ ہے۔
جس دور میں امام کاظم (ع) زندگی بسر کر رہے تھے وہ عباسی حکمرانوں کے ظلم و جور کا دور تھا انہوں نے علویوں کے نام پر اقتدار سنبھالنے کے فورا بعد، لوگوں سے خاص کر علویوں کے ساتھ نسبتا نرمی کا سلوک اختیار کیا لیکن جیسے ہی حکومت میں ان کے پاؤں جم گئے اور سلطنت کی بنیادوں کو مضبوط بنا ڈالا تو انہوں نے ظلم و ستم کرنا شروع کر دیا اور اپنے مخالفین پر سخت دباؤ ڈالنا شروع کر دیا۔ ایسے ماحول میں امام کاظم(ع) ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتے تھے تا کہ وہ اپنے شیعوں اور چاہنے والوں کو حکمرانوں کے دباؤ سے نجات دلا سکیں جیسا کہ امام علیہ السلام نے علی ابن یقطین سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ عباسی دربار میں رہ شیعوں اور چاہنے والوں کو نجات دیں، علی ابن یقطین امام کاظم(ع) کے خاص صحابیوں میں سے تھے جو عباسی حکومت میں بہت بااثر تھے وہ مہدی اور ہارون کے دور میں بھی بہت بااثر تھے اور انہوں نے شیعوں اور چاہنے والوں کو زمانے کی مشکلات سے نجات دلانے کی ہر ممکنہ کوشش کی۔ جب انہوں نے امام علیہ السلام سے یہ مطالبہ کیا کہ وہ عباسی خلافت کو ترک کر دیں تو امام علیہ السلام نے انہیں اس طرح کی اجازت دینے سے انکار کر دیا اور فرمایا: ایسا ہرگز نہ کرو کیونکہ ہمیں تمہاری وہاں ضرورت ہے تم اپنے بھائیوں(شیعوں) کے لئے باعث فخر اور عزت ہو شائد خداوندمتعال تمہاری وجہ سے اپنے چاہنے والوں کو کامیابی عطا کرے اور ان کے بارے میں مخالفین کی سازشوں کو ناکام بنا دے۔ امام کاظم علیہ السلام نے ایسے ماحول میں علی ابن یقطین، ہشام بن حکم، عبداللہ بن یحیی کاہلی،حماد بن عیسی جہمی، صفوان بن یحیی، علی بن حسن، عبداللہ بن جبلہ اور حسین ابن محبوب جسے کچھ نامور اور مشہور شاگردوں کی تربیت کی کہ جنہوں نے مذہب اہل بیت علیہم السلام کے علوم اور مبانی کی نشر و اشاعت اور علویوں اور شیعوں کی حمایت اور حفاظت میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ امام کاظم علیہ السلام نے اسلامی تعلیمات اور علوم کی نشر و اشاعت، تعلیم و تدریس، مناظرے، تالیف و کتابت اور اسلامی حکومت کی تأسیس اور تشکیل کے لئے نہایت اہم کارنامے انجام دینے کی کوشش کی جنہیں تاریخ کے اوراق نے اپنے اندر قید کیا ہے۔ ہارون رشید خداوندمتعال کی حقیقی حجت، حضرت امام کاظم علیہ السلام کے وجود اور ان کی موجودگی کو عباسی حکومت کے راستے میں رکاوٹ سمجھتا تھا لہذا اس نے امام علیہ السلام کو زندان میں قید کر دیا اور ماہ رجب الرجب کی ۲۵ویں تاریخ سن ۱۸۳ہجری کو انہیں شہید کر دیا۔
بانی انقلاب حضرت امام خمینی(رہ) امام کاظم علیہ السلام کے بارے میں فرماتے ہیں: تاریخ میں جب آپ مشاہدہ کرتے ہیں کہ حضرت موسی بن جعفر(ع) کو ہارون گرفتار کر کے کئی سال قید میں بند کر دیتا ہے یا مأمون حضرت امام رضا علیہ السلام کو مرو لے جاتا ہے اور انہیں نذربند کر دیتا ہے اور آخرکار انہیں زہر دے دیتا ہے تو اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ اولاد پیغمبر صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہیں اور عباسی حکمران پیغمبر اسلامؐ کے مخالف ہیں، ہارون اور مأمون دونوں شیعہ تھے، بلکہ اس کی حقیقی وجہ یہ ہے کہ ان کی سلطنت کو خطرہ تھا اور انہیں معلوم تھا کہ اولاد علی علیہ السلام اسلامی حکومت کی تشکیل کی خواہاں ہے اور اس چیز کا اصرار بھی کر رہی ہے اور وہ خلافت و حکومت کو اپنی ذمہ داری سمجھتی ہے جیسا کہ جب امام علیہ السلام سے کہا گیا کہ فدک کے حدود کی تعیین فرمائیں تا کہ اسے آپ(ع) کو واپس لوٹایا جائے تو امام علیہ السلام نے بعض روایات کے مطابق اسلامی ملک کی حدود کو معین فرمایا یعنی وہاں تک ہمارا حق ہے اور وہاں تک ہماری حکومت ہونی چاہئے اور تم لوگ جو ظاہری طور پر حکومت کی کرسی پر بیٹھے ہوئے ہو وہ غصبی ہے۔ لہذا زمانے کے حکام کو معلوم تھا کہ اگر امام کاظم علیہ السلام آزاد رہیں تو ان پر زندگی حرام کر دیں گے اور اس چیز کا بھی امکان ہے کہ امام علیہ السلام قیام کر کے سلطنت کا تختہ الٹ دیں اسی وجہ سے انہوں نے امام علیہ السلام کو فرصت و مہلت نہیں دی اور اگر وہ فرصت دیتے تو اس میں کوئی شک نہیں امام علیہ السلام ضرور قیام کرتے۔ آخر کار ہارون رشید ملعون نے والی بصرہ عیسی بن جعفر کو لکھا کہ موسی بن جعفر امام موسیٰ کاظم علیہ السلام کو قتل کر کے مجھ کو ان کے وجود سے سکون دے، لیکن وہ قید میں امام علیہ السلام کی زندگی سے بہت متأثر ہو گیا اور اس نے لکھا کہ میں ان کے قتل میں اپنے انجام اور اپنی عاقبت کی تباہی دیکھ رہا ہوں، لہٰذا تو مجھے اس گناہِ عظیم کے ارتکاب سے معاف کر دے بلکہ تو مجھے حکم دے کہ میں ان کو اس قید با مشقت سے آزاد کر دوں۔ اس خط کو پانے کے بعد ہارون رشید ملعون نے اس کام کو سندی بن شاہک کے حوالے کیا اور اسی ملعون کے ذریعہ امام علیہ السلام کو زہر دلوا کر شہید کر دیا۔