امام رضا علیہ السلام نے اسلامی ثقافتی کو زندہ کیا ہے
خداوندِ متعال نے حضرت محمد مصطفیٰ(ص) کی بعث کا مقصد آیاتِ الٰہی کی تلاوت، تزکیہ اور کتاب و حکمت کی تعلیم بیان کر کے اسلامی ثقافت کے خدّوخال کی نشاندہی فرمائی ہے۔ پیغمبر اکرم(ص) نے اِس عظیم ذمہ داری کو نہایت خوش اسلوبی سے انجام دے کر اسلامی ثقافت اور تہذیب و تمدُّن کی بنیاد رکھی اور اسے ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرنا آپؐ کے برحق جانشینوں کی ذمہ داری قرار پایا۔ پیغمبر اکرم(ص) کے آٹھویں جانشین عالمِ آلِ محمدؐ حضرت علی ابن موسیٰ الرضا علیہما السلام نے اِس ذمہ داری کو نہایت خوبصورت انداز میں انجام دے کر مدینۂ فاضلہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔ آپؑ کی سیرت اور تعلیمات میں اسلامی ثقافت کی اعلیٰ اَقدار کے حصول کے لیے معاشرے میں عقلانیت کو فروغ دیتے ہوئے علم کا بول بالا ضروری ہے۔
پیغمبر اکرم(ص) کے حقیقی جانشین کا تعارُف
بظاہر علمی بحثوں میں دلچسپی کے حامل حکمران اور تحریکِ ترجمہ کے عروج کے باعث، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا دَورِ امامت علمی تحریک اور پیشرفت کے لحاظ سے درخشاں ترین دَور تھا۔ لہٰذا جب آپؑ مرو تشریف لائے تو عوام کا ایک گروہ معتقد تھا کہ امام کو خداوندِ متعال تعیین کرتا ہے، جبکہ دوسرا گروہ امام کو عوامی نمائندہ اور اُمت کا وکیل سمجھتا تھا۔ امام علی رضا علیہ السلام نے قرآن و سنّت کی روشنی میں پیغمبر اکرم(ص) کے حقیقی جانشینوں کا تعارُف کروا کر اُمت میں موجود اِس انحراف کی اصلاح فرمائی، تاکہ سب لوگ ایک قومی دھارے کی طرف متوجہ ہو جائیں؛ لہٰذا آپؑ نے فرمایا: ’’امام کی قدر و منزلت، شان و شوکت، لوگوں کے فہم و شعور سے اِس قدر بلند ہے کہ وہ اسے پَرکھیں یا اس کا انتخاب کریں۔[3] نیز آپؑ فرماتے ہیں: ’’بےشک امامت ہی اسلام کی پاک و پاکیزہ بنیاد اور اس کی بابرکت فرع ہے اور امام ہی کی بدولت نماز، زکات، روزہ، حج اور جہاد مکمل ہوتے ہیں .
امام علی رضا علیہ السلام اور اسلامی ثقافت کا اِحیاء
حضرت امام حسین علیہ السلام کی مظلومانہ شہادت کے بعد حضراتِ ائمہ معصومین علیہم السلام نے ثقافتی جدّوجہد کے ذریعے اسلامی اَقدار و تعلیمات کے اِحیاء کا بیڑا اُٹھایا اور اِس میدان میں حضرت امام محمد باقر و حضرت امام جعفر صادق علیہما السلام کے بعد، حضرت امام علی رضا علیہ السلام کو اسلامی ثقافت کے اِحیاء کا زیادہ موقع ملا؛ کیونکہ بنی عباس کے دَورِ حکومت میں روم، ایران، مصر اور یمن وغیرہ جیسے دنیا کے عظیم تہذیب و تمدُّن کے حامل ممالک، اسلامی نقشے میں شامل ہو چکے تھے اور زرتشتی، صابئی، نسطوری، رومی اور برہمنی مترجمین نے جب علمی آثار کو یونانی، فارسی، سریانی، ہندی اور لاتینی زبانوں سے عربی میں ترجمہ کیا تو ان کے فاسد، مخرِّب اور غیر اسلامی نظریات بھی اسلامی ثقافت میں داخل ہو گئے، جو نوجوان طبقے اور سادہ لوح افراد کے تنزُّل و تزلزل کا باعث بنے۔[5] ایسے ماحول میں خالص اسلامی ثقافت کے اِحیاء میں حضرت امام علی رضا علیہ السلام کا کردار نہایت اہمیت کا حامل تھا۔
اسلامی ثقافت کے اِحیاء سے متعلق حضرت امام رضاؑ کے اِقدامات
۱۔ شاگردوں کی تربیت
حضرت امام علی رضا علیہ السلام نے اٹھارہ سال مدینہ منوّرہ میں اور دو سال مرو میں اپنے قیام کے دوران متعدّد شاگردوں کی تربیت فرمائی۔ آپؑ کے اصحاب میں امام جعفر صادق اور امام موسیٰ کاظم علیہما اسلام کے اصحاب بھی شامل تھے۔ ہم نے مختلف کتابوں میں آپؑ کے اصحاب کی تعداد ۵۶۱ تک دیکھی ہے۔ آپؑ نے وکلاء کا ایک وسیع نیٹ ورک قائم کر کے مسلمانوں کی تربیت اور مدینۂ فاضلہ کی تشکیل میں اہم کردار ادا کیا۔
۲۔ سنّتِ نبویؐ کے مطابق نمازِ عید
عید الفطر کے دن مأمون نے آپؑ سے نمازِ عید پڑھانے کا اصرار کیا تو آپؑ نے اِس شرط پر یہ پیشکش قبول کی کہ آپؑ نمازِ عید پیغمبر اکرم(ص) اور امیرالمؤمنین علی ابن ابیطالب علیہما السلام کی سنّت کے مطابق پڑھائیں گے۔ جب عید کے دن امامؑ نبویؐ انداز میں خوشبو سے معطر، عبا اور کتّان کا عمامہ پہنے، ہاتھ میں عصا تھامے، پا برہنہ گھر سے باہر تشریف لائے اور تکبیر لگائی تو آپؑ کی اقتداء میں اَشک رواں لوگوں کی تکبیروں سے شہر گونج اُٹھا۔ مأمون نے یہ منظر دیکھ کر خطرے کا احساس کرتے ہوئے آپؑ کو نمازِ عید پڑھانے سے روک دیا اور واپس بیت الشرف لوٹ جانے کی درخواست کی۔
۳۔ امامؑ سے منسوب کتابیں
حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے متعدّد کتابیں منسوب ہیں، جن میں فقہ الرضاؑ، محض الاسلام و شرائع الدین، صحیفۃ الرضاؑ اور رسالۂ ذہبیہ قابلِ ذکر ہیں۔
۴۔ مختلف اَدیان کے پیروکاروں سے مناظرے
مأمون عباسی نے مختلف اَدیان کے ماہر اور نابغہ روزگار افراد سے حضرت امام علی رضا علیہ السلام کے مناظروں کے پروگرام ترتیب دیئے اور اُسے یہ گمان تھا کہ حجاز میں رہنے والا قرآن و سنّت کا یہ عالِم روزمرہ کے جدید منطقی اور فلسفی دلائل کا مقابلہ نہیں کر پائے گا اور اِس طرح علمی بحثوں میں شکست سے اس کی شان و منزلت میں کمی آ جائے گی۔ یوں تو مأمون کے اِس طرزِ تفکر پر فراوان دلائل موجود ہیں لیکن ہم یہاں امام علی رضا علیہ السلام کے ایک بیان پر اکتفاء کرتے ہیں۔ آپؑ فرماتے ہیں: ’’جب میں اہلِ تورات کے ساتھ ان کی تورات سے، اہلِ انجیل کے ساتھ ان کی انجیل سے، اہلِ زبور کے ساتھ ان کی زبور سے، ستارہ پرستوں (صابئیوں) سے ان کی عبرانی زبان میں، اہلِ ہرابزہ (زرتشتیوں) سے ان کی پارسی زبان میں اور رومیوں سے ان کی زبان میں گفتگو اور استدلال کروں گا اور اُن سب کو اپنی صداقت پر قائل کرلوں گا تو خود مأمون پر واضح ہو جائے گا کہ اس نے غلط راستے کا انتخاب کیا ہے اور وہ یقیناً اپنے فیصلے پر پشیمان ہو جائے گا۔‘‘
حضرت امام رضا علیہ السلام نے متعدّد مناظروں میں شرکت کی، جنہیں مرحوم شیخ صدوقؒ نے ’’عیون اَخبار الرضاؑ‘‘ میں، علامہ مجلسیؒ نے ’’بحار الانوار‘‘ جلد ۴۹ میں اور علامہ عزیز اللہ عطاردیؒ نے ’’مسند الامام الرضاؑ‘‘ جلد ۲ میں ذکر کیا ہے۔ لیکن اِن مناظروں میں مختلف اَدیان کے سربراہوں کے ساتھ امامؑ کے وہ مناظرے اہم ترین ہیں جن میں آپؑ نے عیسائیوں کے پیشوا ’’جاثلیق‘‘، یہودیوں کے پیشوا ’’راس الجالوت‘‘، زرتشتیوں کے پیشوا ’’ہربزِ اکبر‘‘، حضرت یحییٰ ؑ کے پیروکاروں کے پیشوا ’’عمران صابئی‘‘، علم کلام میں مہارت رکھنے والے خراسان کے عالم ’’سلیمان مروزی‘‘، ’’علی ابن محمد ابن جہم‘‘ ناصبی اور بصرہ سے تعلق رکھنے والے مختلف مذاہب کے افراد سے مناظرے کیے ہیں۔