امام خمینی (رح) کی اخلاقی اور تربیتی نصیحتیں
خود سازی کا اثر
انسان خودسازی کرتا ہے اور خود کو سنوارتے سنوارتے اور الہی، اسلامی اور انسانی بناتے بناتے جب اس کا نفس قوی اور مضبوط ہوجاتا ہے، اور اسی کیفیت میں اس نے دنیاوی چمک دمک، مال و منال، جاہ و حشم اور کثرت اولاد و افراد کی جانب توجہ نہیں کرتا؛ اس وقت ا س کی اہمیت اور ارزش معلوم ہوتی ہے۔(صحیفہ امام، ج6، ص 329)
خود کو سنوارے ہوئے اور خود ساختہ انسان، دنیا کی قید و بند سے آزاد انسان، دنیا اور اس کی زینتوں سے بے خبر اور لاپرواہ ہوتے ہیں۔ ان کے نزدیک صرف اور صرف خداوند عالم اور خالق کائنات عظیم ہوتا ہے، ان کی نظر میں صرف رب العالمین قابل قدر هوتا ہے۔ اور عظمت و اہمیت رکھتا، اسی کے سامنے وہ تسلیم ہوتا اور خضوع کرتا ہے۔ اس طرح کے انسان معاشرہ اور سماج میں اثر انداز ہوسکتے ہیں، سماج کے لئے مفید اور کارآمد ثابت ہوسکتے ہیں اور یہ لوگ فرمان الہی کے خلاف کبھی کوئی کام نہیں کریں گے۔ حضرت امام کے الفاظ میں کہ اگر پوری دنیا نافرمانی اور خلاف ورزی کرے تو وہ کرسکتی ہے لیکن جو انبیائے الہی کی تعلیم و تربیت کا پروردہ ہوگا وہ نافرمانی اور خلاف ورزی نہیں کرے گا۔ (صحیفہ امام، ج 9، ص 14)
جب انسان خودساختہ تعلقات اور دنیا سے جدا نہیں ہوگا اس وقت تک وہ آزادی کا دعوی نہیں کرسکتا۔ آزادی اور آزاد فکری ہوا و ہوس اور انفرادی خواہشات سے آزاد ہونے میں معنی دار ہوتی ہے۔ جیسا کہ حضرت امام مدرس اور آپ کی بلند و بالا شخصیت کے بارے میں اسی طرح کا نظریہ رکھتے تھے: ایک آدمی تھے کہ نہ انہیں مال و دولت کی پرواہ تھی اور نہ مقام و منصب کی فکر اور نہ ہی جاہ و حشم کی لالچ ، ان کی صورتحال کچھ اس طرح تھی۔ آپ دنیا و مافیھا سے کافی دور صرف خدا اور اس کا جلوہ، بندوں کی ہدایت، مظلوم کی نصرت اور حمایت نظر میں تھی۔
یقینا خدا رسیدہ اور خدف خدا رکھنے والے عالم ربانی اور دین الہی کے مبلغ اسی طرح ہوتے ہیں، انہیں خدا کے علاوہ نہ کسی کا خوف ہوتا ہے اور نہ ہی کسی چیز کی لالچ اور ہوس ہوتی ہے۔ وہ صرف خدائی جلووں کی تجلی کے خواہاں ہوتے ہیں اور حکومت وقت اور بادشاہاں روزگار کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اللہ کا پیغام پہونچاتے، حق کو ثابت کرتے اور دینی مظاہر کی جلوہ گری کے خواہشمند ہوتے ہیں، ایسے لوگ ہمیشہ ظالم کوئی شخص ہو یا حکومت، اس کے خلاف صدائے احتجاج بلند کرتے اور باطل کے چہرے سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ حق کے حامی اور مددگار، مظلوم کے یاور و ناصر ہوتے ہیں۔
علماء کے علاوہ جو بھی خود سازی کرے گا وہ بھی ایسا ہی کردار پیش کرے گا اور لوگوں نے ایسا کردار پیش کیا ہے۔ خود سازی فطرت کا تقاضا ہے اور فطرت حق جوئی، حق گوئی، صدق بیانی، انصاف و مروت، انسانیت اور آدمیت کی خواہاں ہوتی ہے۔ خودسازی نفس اور باطن میں موجود بڑے بڑے بتوں کا خاتمہ ہوتا ہے، شیطان پرستی سے نکل کر خدا پرستی کی طرف آتا ہے۔ کاش انسان اپنے باطن پر نظر کرتا اور اپنے اندر کی ظلمتوں، تاریکیوں اور غلاظتوں کو دور کرکے نور کی روشنی میں انسانی اور الہی زندگی گذارتا۔