امام خمینی (رح) کا مہذب ہونا ہی باعث ہوا تھا کہ آپ جوانوں اور کمسن لوگوں کے ساتھ بزرگوں اور علماء بلکہ ان سے بہتر سلوک کرتے تھے۔ فطری ہے کہ خشک اور مقدس مآبانہ رویہ جوان نسلوں سے مطابقت کرنے اور انہیں جذب کرنے میں مانع ہوتا، مثال کے طور پر خود ناچیز کے ساتھ آپ کا قم اور نجف میں رویہ جبکہ میں ایک نوعمر جوان تھا اور ابھی پورے طور سے ڈاڑھی بھی نہیں نکلی تھی لیکن آپ کا میرے ساتھ رویہ اس درجہ مہربانی اور احترام کے ساتھ تھا کہ ہمارے بعض اطراف والوں کی حیرت کا سبب بنا ہوا تھا۔ جناب آقا شیخ عبدالکریم قرہی جو نجف میں اور وہاں کے بعد ایران میں امام کے ہمراہ تھے، نے مجھ سے کہتے تھے:
میں تمہارے ساتھ امام کے اس رویہ پر تعجب کرتا ہوں، لیکن میں خود اپنے اندر امام کے اس رویہ کے قابل کوئی صفت نہیں پاتا تھا۔ جز یہ کہ میں ایک جوان طالب علم تھا اور تازہ تازہ آپ کے محفل درس میں شرکت کررہا تھا اور میں اپنے ساتھ امام کے اس رویہ کو طلاب کی شخصیت سازی کے لئے ایک عملی درس جانتا تھا۔ انہوں نے مجھے تعلیم دیا کہ مطلوب شخصیت کس طرح کی ہوتی ہے اور اس تک رسائی جوانی اور انسان کے اندر ہوا و ہوس کے جڑ پکڑنے سے پهلے ممکن ہوتی ہے لیکن جوانی کا دور گذرنے اور پردوں کے زیادہ ہوجانے کے بعد خودسازی اور تزکیہ نفس تقریبا ناممکن ہوجاتا ہے جیسا کہ خود امام (رح) نے اپنے نفس کو اسلامی آداب سے جوانی کے ایام میں آراستہ کیا تھا۔