الہی امتحانات انسان کی ترقی و کمال کا باعث
امتحان ہر انسان سے لیا جارہا ہے۔ اللہ تعالی نے انسان کو خلق کیا ہے تو اس سے امتحان لینے کی خبر بھی دیدی ہے اور امتحان ایسا نہیں کہ صرف قبول(پاس) ہوجانا کافی ہو، بلکہ سب سے زیادہ بہتر اعمال بجالانے کا امتحان ہے، اور امتحان انسان کو کمال کی منازل پر پہنچاتا ہے۔
بسم اللہ الرحمن الرحیم
اللہ تعالی کی تبدیل نہ ہونے والی ایک سنت، "امتحان" ہے جسے خداوند متعال اِس دنیا میں سب انسانوں سے لیتا ہے۔ سورہ عنکبوت کی آیت ۲ میں ارشاد الہی ہے: "أَحَسِبَ النَّاسُ أَن يُتْرَكُوا أَن يَقُولُوا آمَنَّا وَهُمْ لَا يُفْتَنُونَ"، "کیا لوگوں نے یہ خیال کر رکھا ہے کہ وہ صرف اس بات پر چھوڑ دیئے جائیں گے کہ وہ یہ کہہ دیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں اور ان کا امتحان نہیں ہوگا"۔
قابل غور بات یہ ہے کہ اللہ جو امتحان لیتا ہے اس سے مقصد یہ نہیں کہ نعوذباللہ، خداوند متعال نہیں جانتا کہ یہ انسان کیسا ہے۔ اللہ تعالی تو تمام مخلوقات کے سب حالات کو بخوبی جانتا ہے جیسا کہ سورہ بقرہ کی آیت 29 میں پروردگار عالم نے ارشاد فرمایا ہے: "وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ"، "اور وہ ہر شے کا جاننے والا ہے"، بلکہ سورہ یس کی آخری آیت میں ارشاد الہی ہے: "فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ"، "پس پاک ہے وہ ذات جس کے قبضۂ قدرت میں ہر چیز کی حکومت ہے اور اسی کی طرف تم لوٹائے جاؤگے"۔
لہذا امتحان کی وجوہات اس کے علاوہ کچھ اور ہونی چاہئیں۔ خالق کائنات نے سورہ ملک کی پہلی اور دوسری آیت میں ارشاد فرمایا ہے: "تَبَارَكَ الَّذِي بِيَدِهِ الْمُلْكُ وَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ.الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ"، "بابرکت ہے وہ (خدا) جس کے ہاتھ (قبضۂ قدرت) میں (کائنات کی) بادشاہی ہے اور وہ ہر چیز پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ جس نے موت و حیات کو پیدا کیا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے عمل کے لحاظ سے سب سے زیادہ اچھا کون ہے؟ وہ بڑا زبردست (اور) بڑا بخشنے والا ہے"۔
اللہ تبارک و تعالی نے انسان میں مختلف طاقتیں رکھی ہیں، امتحان اور آزمائش کے ذریعہ وہ چھپی ہوئی طاقتیں نکھرتی ہیں، لہذا امتحان کی روشنی میں ان طاقتوں کا نکھرنا، انسان کی ترقی و کمال کا باعث بنتا ہے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علی ابن ابی طالب (علیہ السلام) عثمان ابن حنیف کو خط لکھتے ہوئے (نہج البلاغہ، مکتوب 45میں) فرماتے ہیں: "یاد رکھو کہ جنگل کے درخت کی لکڑی مضبوط ہوتی ہے اور تروتازہ پڑوں کی چھال کمزور اور پتلی ہوتی ہے اور صحرائی جھاڑ کا ایندھن زیادہ بھڑکتا ہے اور دیر میں بجھتا ہے"۔ نیز اسی مکتوب کے آخری حصہ میں آپؑ تحریر فرماتے ہیں: "خوشا نصیب اُس شخص کے کہ جس نے اللہ کے فرائض کو پورا کیا، سختی اور مصیبت میں صبر کئے پڑا رہا، راتوں کو اپنی آنکھوں کو بیدا رکھا اور جب نیند کا غلبہ ہوا تو ہاتھ کو تکیہ بنا کر اُن لوگوں کے ساتھ فرش خاک پر پڑا رہا کہ جن کی آنکھیں خوف حشر سے بیدار، پہلو بچھونوں سے الگ اور ہونٹ یاد خدا میں زمزمہ سنج رہتے ہیں اور کثرت استغفار سے جن کے گناہ چھٹ گئے ہیں۔ یہی اللہ کا گروہ ہے اور بے شک اللہ کا گروہ ہی کامران ہونے والا ہے"۔