السلام علیک یا زوجة ولی اللہ، السلام علیک یا زوجة امیرالمؤمنین
عباس (ع) فخر نوع بشر شان مشرقین
ام البنین کا لال وہ حیدر کا نور عین
ان کا نام فاطمہ اور کنیت ام البنین (بیٹیوں کی ماں) تھی۔ ان کے ماں باپ بنی کلاب خاندان سے تعلق رکھتے تھے، جو پیغمبر اسلام حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کے اجداد تھے۔ ان کے باپ حزام اور ماں ثمامہ یا لیلی ہیں۔ ان کے شوہر علی بن ابیطالب علیہ السلام اور ان کی اولاد عباس علیہ السلام ، عبداللہ، جعفر اور عثمان ہیں کہ چاروں بیٹے سرزمین کربلا میں امام حسین علیہ السلام کی رکاب میں شہید ہوئے۔ حضرت ام البنین (ع) کی آرام گاہ، مدینہ منورہ میں قبرستان بقیع میں ہے۔
فاطمہ ایک پاک دامن اور باتقوی لڑکی تھیں۔ ان کے اخلاقی فضائل، انسانی کمالات، ایمانی طاقت ، ثابت قدمی، صبر و برد باری، بصیرت و دانائی اور قدرت بیان نے انھیں خواتین کی سردار بنا دیا تھا۔
اسلامی روایات کی روشنی میں علی ابن ابی طالب (ع) نے ایک خاص اہتمام کے تحت اپنے بھائی عقیل ابن ابی طالب کے مشورے سے جو انساب کے ماہر سمجھے جاتے تھے ایک متقی و پرہیزگار گھر میں بہادر قبیلے کی نہایت ہی باوقار خاتون "فاطمۂ کلابیہ" سے عقد کیا اور اپنے پروردگار سے تمنا کی کہ پروردگار! مجھے ایک ایسا فرزند عطا کردے جو اسلام کی بقاء کےلئے کربلا کے خونین معرکہ میں رسول اسلام(ص) کے بیٹے حسین(ع) کی نصرت و مدد کرے چنانچہ اللہ نے "فاطمۂ کلابیہ" کے بطن سے کہ جنہیں حضرت علی علیہ السلام نے "ام البنین" کا خطاب عطا کیا تھا، چار بیٹے علی کو عطا کردئے اور ان سب کی شجاعت و دلیری زباں زد خاص و عام تھی اور سبھی نے میدان کربلا میں نصرت اسلام کا حق ادا کیا لیکن عباس(ع) ان سب میں ممتاز اور نمایاں تھے کیونکہ خود حضرت علی علیہ السلام نے ان کی ایک خاص نہج پر پرورش کی تھی۔
عباس دست و بازوئے سلطان کربلا
روشن ہے جس سے شمع شبستان کربلا
جس کے لہو سے سرخ ہے دامان کربلا
جس کی وفا ہے آج بھی عنوان کربلا
حسن عمل سے جس نے سنوارا حیات کو
ٹھکرادیا تھا پیاس میں جس نے فرات کو
ام البنین حتی الامکان یہ کوشش کر رہی تھیں کہ حضرت زہراء سلام اللہ علیہا کے بچوں کےلئے ان کی ماں کی رحلت سے پیدا ہوا خلاء پر کرسکیں، کیونکہ ان کی ماں کمال جوانی میں ان سے جدا ہوئی تھیں اور وہ ماں کی مامتا سے محروم ہوچکے تھے۔
فاطمہ زہراء سلام اللہ کے بچے اس پارسا خاتون کے وجود میں اپنی ماں کو پا رہے تھے اور اپنی ماں کے نہ ہونے کے رنج و الم کا کم تر احساس کر رہے تھے۔
جناب ام البنین، رسول خدا (ص) کی بیٹی کے بچوں کو اپنی اولاد پر مقدم قرار دیتی تھیں اور اپنی محبت کا زیادہ تر اظہار ان کے تئیں کرتی تھیں اور اسے اپنے لئے فریضہ جانتی تھیں، کیونکہ خداوند متعال نے قرآن مجید میں سب لوگوں کو ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے۔
فاطمہ کلابیہ نے، حضرت علی علیہ السلام کے ساتھ ایک مختصر مدت کی مشترکہ زندگی کے بعد امیرالمؤمنین کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی کہ انھیں " فاطمہ" کے بجائے " ام البنین" خطاب کریں تاکہ" فاطمہ" (س) اور " کنیز فاطمہ" کے درمیان فرق مشخص ہوجائے اور یہ فرق محفوظ رہے۔
حضرت ام البنین (ع) کی رحلت
حضرت ام البنین، حضرت زینب کبری (س) کی رحلت کے بعد دارفانی کو الوداع کہہ گئی ہیں۔
تاریخ لکھنے والوں نے ان کی تاریخ وفات مختلف بتائی ہے، اس طرح کہ ان میں سے بعض نے ان کی تاریخ وفات کو سنہ 70 ہجری بیان کیا ہے اور بعض دوسرے مورخین نے ان کی تاریخ وفات کو 13 جمادی الثانی سنہ 64 ہجری بتایا ہے اور دوسرا نظریہ زیادہ مشہور ہے۔
ام البنین کی مہر و محبت اور مبارزہ سے چھلکتی زندگی آخری لمحات میں تھی، ام البنین کی زندگی کی آخری رات تھی۔ خادمہ فضہ نے اس مودّب خاتون سے مخاطب ہو کر درخواست کی کہ ان آخری لمحات میں اسے ایک بہترین جملہ سکھائے۔ ام البنین نے ایک تبسم کے بعد گنگناہٹ کی حالت میں فرمایا:" السلام علیک یا ابا عبداللہ " اس کے فورا بعد فضہ نے ام البنین کو احتضار کی حالت میں پایا اور دوڑ کے علی علیہ السلام اور حسین علیہ السلام کی اولاد کو بلایا۔ تھوڑی ہی دیر بعد اماں! اماں! کی آواز مدینہ میں گونج اٹھی۔
حضرت فاطمہ زہراء (س) کے بیٹے اور نواسے ام البنین کو ماں کہہ کر پکارتے تھے اور یہ خاتون انھیں منع نہیں کرتی تھیں، شائد اب اس میں یہ کہنے کی طاقت باقی نہ رہی تھی کہ:" میں فاطمہ (س) کی کنیز ہوں۔"
بہر حال ام البنین (ع) کو جنت البقیع میں، رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی دو پھپھیوں: صفیہ و عاتکہ کے پاس امام حسن علیہ السلام اور فاطمہ بنت اسد علیہا السلام کی قبروں کے قریب سپرد خاک کیا گیا۔
" السلام علیک یا زوجة ولی اللہ، السلام علیک یا زوجة امیرالمؤمنین، السلام علیک یا ام البنین، السلام علیک یا ام العباس ابن امیرالمؤمنین علی بن ابی طالب علیہ السلام، رضی اللہ تعالی عنک وجعل منزلک وما واکِ الجنہ ورحمتہ اللہ و برکاتہ۔ ۔ ۔
التماس دعا