اسلام دشمنوں نے غیر صالح حکام کے ہاتھوں تفرقہ اندازی کی تلوار سے امت پیغمبر اسلام ؐ کی وحدت کو پارہ پارہ کیا ہے۔
سن ۱۹۷۶ء میں امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے نمائندے جمی کارٹر کے بر سر اقتدار آتے ہی وہائٹ ہاؤس نے حقوق بشر کے دفاع کی تھیوری کا بڑے وسیع پیمانے پر پروپیگنڈہ شروع کردیا جس کا اصل مقصد دنیا کے مختلف حصوں، مثلا ویتنام، جاپان، کوریا اور فلسطین وغیرہ میں امریکی جرائم پر پردہ ڈالنا اور ان ہولناک کرتوتوں کو لوگوں کی یادوں سے بھلا دینا نیز اسے اپنے مشرقی حریف سوویت یونین پر دباؤ ڈالنے کےلئے ایک ہتھکنڈہ بنانا تھا۔
ایران میں شاہی حکومت اپنے مخالفین کا سر کچل کر ان کا قلع قمع کر دینے اور مسلحانہ مبارزہ پر یقین رکھنے والے گروہوں کو منتشر کر دینے کے سبب خود کو مضبوط و مستحکم سمجھنے لگی تھی؛ خصوصا خلیج فارس کے علاقے میں واقع ملکوں سے برطانیہ کی فوجیں باہر نکل جانے کے بعد سرکاری سطح پر ایران نے اپنے ثبات و استحکام کی نمائش کے بل بوتے پر اس علاقے کے چوکیدار کی حیثیت حاصل کر لی تھی۔ امریکیوں کا اس صورتحال سے فائدہ اٹھانا ایک ضروری امر تھا؛ چنانچہ ایران کو ایک حساس ترین علاقے یعنی روس کے پڑوس میں امریکہ اور مغرب کے مفادات کے محافظ اور تیسری دنیا کے ملکوں کے درمیان مغرب کی ہمہ جانبہ حمایت کے حاصل ملک کی حیثیت سے جانا اور پہچانا جاتا تھا۔
دوسری طرف ظلم و ستم پر مبنی ساواک کی براہ راست حکومت اور شاہ کی آمریت کی سیاست کا جاری رہنا کارٹر کی نئی پالیسیوں اور انسانی حقوق کی طرفداری کے دعووں سے میل نہیں کھاتا تھا۔ اس لحاظ سے امریکہ کی جانب سے نظام سلطنتی کے ارکان و عناصر کو کسی بھی طرح کا معمولی نقصان پہنچائے بغیر معاشرہ کو چلانے کے سلسلے میں میانہ رو سیاسی روش کا حکم شاہ کو دیا جاتا ہے۔ وہ بھی ان حالات میں جبکہ امریکہ کے گذشتہ منصوبے اور شاہ کے نام نہاد "انقلاب سفید" سے کوئی فائدہ حاصل نہیں ہوسکا تھا۔
عظیم تمدن کا دروازہ محض ایک سراب کی مانند ملت ایران میں ناراضگی کی لہر، غربت اور معاشرے میں طبقاتی اختلاف کی کھائیاں روز بروز اور شدید ہوتی جارہی تھیں۔ پہلے اقدام کے طور پر ۱۴ سال کے بعد امیر عباس ہویدا کو وزیر اعظم کے عہدے سے معزول کرکے اس کی جگہ مغربی فکر کے حامل جمشید آموزگار کو وزیراعظم بنا دیا جاتا ہے۔
امام خمینیؒ کی دور اندیشی اور وقت شناسی کے تحت حالات سے صحیح استفادہ کی روش، عالمی حالات خصوصا ایران کے مسائل پر ان کی گہری نظر کی دلیل تھی۔ اگرچہ وہ کئی برسوں سے وطن سے دور تھے۔
آیت ﷲ حاج آقائے مصطفی خمینی نجف اشرف میں ۲۳/ ۱۰ / ۱۹۷۷ء کو اسرار آمیز طور پر شہید کر دئیے جاتے ہیں۔ تمام دوستوں حتی حوزہ علمیہ میں امام خمینیؒ کے بہت سے مخالفین کے بقول امام خمینیؒ کی تحریک کا مستقبل ان سے وابستہ تھا۔ چنانچہ باوجود اس کے اس حادثے نے میدان جہاد میں ایک عظیم روحانی صدمہ پہنچایا تھا؛ امام خمینیؒ نے کمال صبر و تحمل اور بڑے ہی حیرت انگیز انداز میں اس واقعہ کو اللہ کے مخفی الطاف میں شمار کیا۔
آپ کے اس فرزند عزیز کی یاد میں ایران کے بہت سے شہروں میں بڑے ہی شکوہ انداز میں مجالس برپا ہوئیں۔ انقلابی مقررین نے اس موقع کو غنیمت جانا اور ان مجالس میں انہوں نے شاہی نظام کے جرائم کا پردہ فاش کرنے کے ساتھ ہی ۱۵ خرداد کے انقلابی اقدام کے اہداف و مقاصد سے لوگوں کو آگاہ کیا۔ ایک بار بڑے ہی وسیع دائرے میں امام خمینیؒ کا نام لوگوں کی زبانوں پر جاری نظر آنے لگا۔ حکومت نے انتقام کا فیصلہ کیا اور روزنامہ "اطلاعات" میں ۱۷دی ماہ ۱۳۵۶ھ،ش (۷/۱/۱۹۷۸ء) کو عین اسی دن کہ جو ایران میں رضا شاہ کے ہاتھوں "بے پردگی کے رواج کا دن" کہا جاتا تھا، ایک فرضی شخص رشیدی مطلق کیطرف سے ایک مقالہ ایران اور سرخ و سیاہ استعمار کے عنوان سے شائع کیا جاتا ہے جس میں انقلابی علماء اور امام خمینیؒ کی کھل کر اہانت کی گئی۔ اس مقالے کے شائع کرنے سے حکومت کا دوسرا مقصد امریکہ کی جانب سے حقوق بشر سے متعلق نام نہاد نئی سیاست اپنائے جانے کے بعد حالات کا رخ کا جائزہ لینا بھی تھا۔
حوزہ علمیہ میں امام خمینیؒ کے ساتھی بھی مصروف عمل ہوگئے اور اگلے دن حوزے کے دروس کی تعطیل ہوگئی اور قم کے طلاب اور عوام پر مشتمل کثیر جماعت جلوس کی شکل میں سڑکوں پر نکل آئی اور اس مقالہ کی اشاعت پر احتجاج اور قم کے مراجع و اساتذہ کو اپنا ہم آواز بنانے کی خاطر ان کے گھروں پر گئی۔
رات کو مسجد اعظم میں موجود ایک کثیر جماعت کے ذریعے "درود بر خمینی؛ مرگ بر حکومت پہلوی" کے فلک شگاف نعروں سے قم کے در و دیوار لرز اٹھے اور ۱۵ خرداد کی یادیں ایک بار پھر تازہ ہو گیئں۔
اگلے دن ماہ ۹ جنوری کو پہلے روز سے بھی وسیع پیمانے پر صبح سے ہی مظاہرے شروع ہوگئے۔ ظہر کے بعد شاہی پولیس کی گولیوں نے مجمع کو خاک و خون میں غلطاں کردیا۔ دونوں طرف سے مقابلہ آرائی آدھی رات تک جاری رہی، کافی لوگ زخمی و شہید ہوگئے۔
۹ جنوری ۷۸ء کے انقلابی اقدام میں اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے والے شہداء کے سوئم و ہفتم کے احترامی مراسم اور بالخصوص چہلم کے مراسم کہ جو مسلسل تبریز، یزد، اصفہان، شیراز، جہرم، اہواز اور تہران میں ایک کے بعد ایک برقرار ہورہے تھے؛ انقلاب کے دائرے کو روز بروز وسیع تر کررہے تھے۔
امام خمینیؒ کے تحریک آمیز اور منقلب کر دینے والے پیغامات ہر موقع کی مناسبت سے نجف اشرف سے انتہائی سرعت کے ساتھ مختلف ذریعوں سے قلیل مدت میں ایران پہنچ رہے تھے اور انقلاب کی لہر گام گام آگے بڑھ رہی تھی۔
اسی سال ماہ رمضان کی مناسبت سے امام خمینیؒ کی طرف سے ۸ نکات پرمشتمل پیغام نشر ہوا جس میں امام خمینیؒ نے رمضان المبارک کی تبلیغات میں منبروں سے تقریروں اور خطبوں کے دوران شاہ کے جرائم افشاء کرنے کو واجب شرعی قرار دے دیا اور اسی چیز نے انقلاب کو ایران کے تمام خطوں حتی دیہاتوں تک پہنچا دیا۔
امام خمینیؒ بڑے اعتماد کے ساتھ بغیر کسی جھجک کے کامیابی کی خوشخبری دے رہے تھے اور ہر اس آواز کی جو طے شدہ منصوبے یعنی شاہی نظام کے خاتمے کےخلاف اٹھائی جاتی تھیں، مذمت کرتے ہوئے ملت کو مسلسل اس قسم کے نعروں کی طرف سے متنبہ اور خبردار کر رہے تھے۔
ہڑتالوں کا سلسلہ بڑھتے بڑھتے سرکاری حلقوں میں بھی سرایت کر گیا۔ آئل کمپنی کے ملازمین کی ہڑتال نے شاہی حکومت پر سخت ضرب لگایا۔ اس ہڑتال کے بعد محکمہ ٹیلی فون و ٹیلی گراف، بنکوں ، مطبوعات، دیگر اداروں اور سرکاری محکموں کے ملازمین نے بھی امام خمینیؒ کے پیغام پر لبیک کہا اور ہڑتالوں میں شریک ہو گئے۔
ادھر عراقی حکومت امام خمینیؒ کو کنٹرول کرنے میں ناکام ہو جاتی ہے۔ اکتوبر ۱۹۷۸ء کے اوائل میں عراقی انٹیلی جنس کے سربراہ سعدون شاکر اور دیگر اور عہدیداروں نے متعدد ملاقاتوں میں دھمکیوں کے ذریعے امام خمینیؒ کو اپنی سیاسی سرگرمیوں سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کی کوشش کیں۔
امام خمینیؒ اپنی ایک تقریر میں ان ملاقاتوں میں سے ایک کیطرف اشارہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
"انہوں نے باقاعدہ طور پر مجھ سے کہا ہےکہ ہم ایرانی حکومت کے ساتھ اپنے باہمی وعدوں کے پیش نظر، آپ کو یہاں کام کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے! آپ کو اس بات کی اجازت حاصل نہیں کہ تقریر کریں ، لکھیں یا کیسٹیں پر کرکے بھیجیں، کیونکہ یہ ہمارے باہمی وعدوں کے منافی ہے۔
میں نے کہا کہ یہ تو میری شرعی ذمہ داری ہے۔ تم بھی بے شک اپنی ذمہ داری نبھاؤ"۔
عراقی حکومت کے دباؤ کے پیش نظر امام خمینیؒ نے اپنی تاریخی ہجرت کا فیصلہ کیا۔ یہ ہجرت نشیب و فراز سے پر ان کی طویل جدوجہد کو ثمر بخش بنانے کا ذریعہ تھی۔
امام خمینیؒ کے ذہن میں ایک حیرت انگیز طریقے سے اس ہجرت کا تصور پیدا ہوا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ایک شیعہ مرجع کی حق پسندانہ آرزوؤں اور نعروں کی گونج یورپ اور مغربی دنیا کے مرکز میں بھی پہنچ گئی۔
جاری ہے