بعثت کے تیرہویں سال، ربیع الاول کی پہلی رات، حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی مکہ معظمہ سے مدینہ منورہ کو ہجرت کا آغاز ہوا؛ اس رات آپ (ص) غار ثور میں پوشیدہ رہے اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام اپنی جان آپ پر فدا کرنے کےلیے مشرک قبائل کی تلواروں سے بے پرواہ ہو کر حضور اکرم (ص) کے بستر پر سو رہے تھے۔ اس طرح آپ نے اپنی فضیلت اور حضرت رسول اللہ (ص) کے ساتھ اپنی اخوت و ہمدردی کی عظمت کو سارے عالم پر آشکار کر دیا۔ پس اسی رات امیرالمومنین علیہ السلام کی شان میں یہ آیت اتری: " وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَشْری نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ (بقره / 207) اور لوگوں میں سے کچھ ہیں جو رضائے الہٰی حاصل کرنے کےلیے جان دیتے ہیں"۔
کلینی ومسعودی کے قول، نیز برادران اہل سنت کی مشہور روایت کے مطابق، بارہویں ربیع الاوّل کے دن، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ اس روز دو رکعت نماز مستحب ہےکہ جس میں پہلی رکعت میں سورہ الحمد کے بعد، تین مرتبہ سورہ کافرون پڑھے؛ دوسری رکعت میں الحمد کے بعد، تین مرتبہ سورہ توحید پڑھے۔
شیعہ امامیہ علماء میں یہ قول معروف ہےکہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ کی با سعادت ولادت ۱۷ ربیع الاول، بروز جمعہ عند طلوع الفجر، اپنے گھر میں ہوئی۔ جبکہ عام الفیل کا پہلا سال اور نوشیرواں شہنشاہ کا عہد حکومت تھا۔
حضرت امام خمینی(رح) ہفتہ وحدت کے متعلق وہابیوں کے موقف کے بارے فرماتے ہیں:
جب وحدت کےلئے ایک صدا بلند ہوئی، اچانک ہم نے دیکھا کہ حجاز سے ایک شخص اونچی آواز میں کہ رہا تھا: پیغمبر کےلئے محفل جشن و میلاد منعقد کرنا اور جلوس نکالنا بالکل شرک ہے!
کیوں اور کیسے شرک ہے؟ البتہ یہ شخص وہابی ہے۔ وہابیوں کو اہل سنت بھی نہیں مانتے، ایسا نہیں کہ صرف ہم نہیں مانتے، ہمارے تمام بھائی بھی ان کو نہیں مانتے۔" (صحیفه امام، ج15، ص454)