خبر رساں ادارے تسنیم کے نمائندے کی رپورٹ کے مطابق شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کے یومِ پیدائش کے سلسلے میں مسلم انسٹیٹیوٹ کے زیر اہتمام اسلام آباد میں تین روزہ عالمی علامہ اقبال کانفرنس دوسرے روز بھی جاری رہی۔
پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ظفر معین ناصر، جرمن اسکالر پروفیسر ہگ وان سکائی ہاک، ڈاکٹر سہیل عمر، ایران کے ڈاکٹربغائی مکان، یوکرائن کے یوہیو ریوتوو، تاجکستان کے ڈاکٹر نور علی رورزاد، موریشیس سوشل ڈیموکریٹ پارٹی کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد خدابخش، ترکمانستان کے ڈاکٹر گلیدی میرت مہمادوف، سرینگر کے ڈاکٹر معروف شاہ، نیشنل ڈیفینس یونیورسٹی سے پروفیسر ڈاکٹر اعجاز اکرم، پنجاب یونیورسٹی سے ڈاکٹر سلیم مظہر اور انٹرنیشنل اسلامی یونیورسٹی کے ادریس آزاد نے کانفرنس کے دوسرے روز اظہار خیال کیا۔
مقررین نے کہا کہ علامہ اقبال نے تصوف کا احیاء کیا- انہوں نے مذہب اور سائنس کے درمیان موجود خلیج کو کم کیا اور ان کے مبین ہم آہنگی پر زور دیا۔
علامہ اقبال نے ظہورِ اسلام کو ظہورِ عقلِ استقرائی قرار دیا اور جدید سائنس کے سہرا مسلمان سائنسدانوں کے سر پر ہے۔ وہ نوجوانوں کو سائنسی علوم کے حصول پر آمادہ کرتے ہیں۔
علامہ اقبال نے سائنسی علوم کے حصول کی جہاں حوصلہ افزائی کی ہے وہیں سامراجی فلسفہ سے بھی خبردار کیا ہے کیونکہ سامراجی فلسفہ نئی سوچ اور لیڈر پیدا نہیں ہونے دیتا- مسلم دنیا نو آبادیاتی دور سے سامراج کے مسلط کردہ معاشی، سماجی اور نفسیاتی اثرات کے باعث زوال سے نکلنے سے قاصر ہے اور دنیا میں سر بلندی کیلئے نوآبادیاتی سوچ سے باہر نکلنا ہو گا۔ مسلم دنیا کو خود اعتمادی کے ذریعے اس حالت سے نکلنا ہو گا۔
علامہ اقبال امیر ریاستوں کی جانب سے غریب مسلم ریاستوں کے استحصال سے بخوبی آگاہ تھے۔ وہ ایک نئے عالمی نظام کے حق میں تھے جس کی باز گشت آج کل مختلف حلقوں میں نظر آتی ہے۔
انہوں نے سلطانی جمہور کی بنیاد پر فلاحی اسلامی معاشرے کے قیام کا خواب دیکھا۔
علامہ اقبال نے ہمیں برداشت، اخوت اور تحمل پر مبنی معاشرے کا تخیل دیا ہے- انہوں نے تصوف کا احیاء کیا ہے اور انسانِ کامل کا نظریہ پیش کیا ہے جو دراصل تکمیلِ انسان کا ہی نظریہ ہے جو مختلف صوفیاء کے ہاں نظر آتا ہے۔
علامہ اقبال نے انفرادی حیثیت کے ساتھ ساتھ فرد کی اجتماعی حیثیت پر زور دیا ہے اور اس نظریہ سے پہلو تہی کرنے کے باعث مغرب میں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا ہے۔
علامہ اقبال کا خودی کا نظریہ دراصل انسانی حقوق کا نظریہ بھی ہے جہاں ہر شخص کو حقِ خود ارادیت حاصل ہو۔
انہوں نے مثالی معاشرے کے قیام کیلئے جناح کو خطوط لکھے۔ علم دوستی معاشرے کی ترقی کیلئے ضروری ہے اور آج ہمیں علم کی قدر نہ کرنے کا خمیازہ یہ بھگتنا پڑ رہا ہے کہ نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد استاد کے بغیر پرورش پا رہی ہے۔
اقبال ایک ایسا استاد ہے جو معاشرے کی اجتماعی تربیت کر سکتا ہے چنانچہ ہمیں اقبال کی قدر کرنی چاہئے جیسا کہ قائد اعظم کا فرمان ہے کہ ریاست یا اقبال میں سے انہیں کسی ایک کا انتخاب کرنا پڑے تو وہ اقبال کا انتخاب کریں گے۔