قرآنی آیات اور نبو ی روایات کی بنیاد پر حضرت محمد ﷺ کی بعثت کا مقصد تمام انسانوں کی تربیت وتہذیب اور تزکیہ تھا نیز آپ اس لئے مبعوث کئے گئے تھے کہ اخلاقی فضائل ومکارم کا اتمام واکمال کریں ۔
امام خمینی (ره) نے اس سلسلہ میں تحریر فرمایا ہے: جو بات جاننے کی ہے وہ یہ کہ حضرت رسول اکرم (ص) کی جو یہ حدیث ہے: {بعثت لأتمّم مکارم الأخلاق} اس کے مطابق آپ کی بعثت کی غایت اور دعوت کا نتیجہ مکارم اخلاق کا اکمال ہے اور احادیث شریفہ میں اجمال وتفصیل کے ساتھ معارف کے بعد ہر چیز سے زیادہ مکارم اخلاق کی تاکید کی گئی ہے۔۔۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ آخرت کی ابدی حیات کاسرمایہ اور اس نشأت میں زندگی بسر کرنے کا راس المال، اخلاق کریمہ کا حصول اور مکارم اخلاق کا اتصاف ہے۔ (شرح چہل حدیث، ص ۵۱۱)
انڈونیشیا کے ’’ٹیمپو ‘‘ نامی اخبار کے خبر نگار نے امام خمینی (ره) سے ایک انٹر ویو لیا آپ نے دنیا میں بشر کی تمام مشکلات کو حل کرنے کیلئے اسلا می نظام میں معنویت کے اثرات پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا:
یہ بات مسلم ہے کہ اسلا می نقطہ نظر سے انسانوں کی زندگی میں جو مشکلات ہیں ان سب کو حل کرنے کیلئے صرف اقتصادی روابط میں نظم وضبط ضروری نہیں ہے اس طرح کبھی بھی مشکلات حل نہ ہوں گی بلکہ تمام مشکلات کو ایک اسلا می نظام کے دائرہ میں رہ کر حل کرنا چاہئے اور معنویت سے کبھی غافل نہیں ہونا چاہئے یہ تمام بیماریوں کی کنجی ہے۔
ہمار ا عقیدہ یہ ہے کہ جو مکتب پورے معاشرہ کی ہدایت کر سکتا ہے اور سب کو ترقی دے سکتا ہے وہ اسلا م ہے اور آج جبکہ دنیا ہزاروں مشکلات میں گرفتار ہے اگر ان سے نجات حاصل کرنا چاہے اور انسان بن کر زندگی گزارے تو اسے اسلا م کے قوانین پر عمل کرنا چاہئے۔ (صحیفہ امام، ج۵، ص ۴۳۷)
آپ نے ایک دوسری تقریر میں بھی یہ بیان فرمایا کہ اسلا می قوانین اور نزول قرآن کا مقصد تمام مراحل میں تربیت تھا:
اسلا م انسان سازی کیلئے آیا ہے، اسلا م کی آسمانی کتاب جو قرآن ہے یہ انسان کی تربیت کی کتاب ہے انسان کے سارے مراحل میں ہدایت کرتی ہے روحانی، جسمانی، سیاسی، اجتماعی اور ثقافتی ہر مرحلہ کیلئے ہے، اسلا م اس لئے آیا ہے کہ ہمیں تربیت کا راستہ دکھائے ہمیں بھی اسلا م کی پیروی کرتے ہوئے اپنے جوانوں کی پیروی کرنی چاہئے۔( صحیفہ امام، ج۶، ص۵۳۰)
آپ نے اپنی کتاب ’’جہاد اکبر ‘‘یا نفس کے ساتھ جہاد میں مرقوم فرمایا ہے:
انبیائے الٰہی اس لئے مبعوث ہوئے تھے کہ لوگوں کی تربیت کر کے انہیں انسان بنائیں ، انسان کو برائیوں ، گندگیوں اور اخلاقی فساد ورذائل سے نجات دیں اسے فضائل وآداب حسنہ سے آشنا کریں آنحضرت (ص) نے اپنی بعثت کا مقصد یوں بیان فرمایا ہے: { بعثت لأتمّم مکارم الأخلاق }۔( جہاد اکبر، ص ۲۴)
آپ نے تمام معلمین اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ سے تاکید کی کہ طلاب کی تربیت ضروری ہے: سب کو ان کی تربیت کرنی چاہئے، سب لوگ ان کی تربیت میں مشغول ہوں ، ان کی صحیح طور پر اسلا می تربیت ہو کیونکہ اسلا می صحیح تربیت میں تمام خصوصیات ہیں ۔ (صحیفہ امام، ج۶، ص۴۷۷)
اس حقیقت کے پیش نظر کہ بعثت کا مقصد اخلاق ہے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ یہ نبوی وقرآنی اخلاق، مطلق ودائم اور ثابت ہیں اور کبھی اس میں تبدیلی نہیں ہوتی، کسی وقت بھی بعثت کا نتیجہ ختم نہیں ہوگا اور نہ ہی عوض ہوگا اور اسلا م کی اخلاقی تعلیمات، جاوید وعالمی ہیں وہ نسبی نہیں ہیں کسی خاص وقت، جگہ اور قوم سے بھی مخصوص نہیں ہیں ۔ حضرت پیغمبر اسلا م ﷺکی بعثت کے ذریعہ اخلاق کامل ہوا اور یہ کامل وجامع اخلاق کا نظام بعثت کا عظیم نتیجہ ہے اور ہمیشہ معتبر رہے گا اور اس کی پیروی لازمی ہوگی۔