قولہ ؐ: " لو لا نحن، ما خلق اﷲ آدم ۔۔۔" اگر ہم نہ ہوتے تو ﷲ آدم کو خلق نہ فرماتا ...
اس بنا پر، یہ معصومین (ع) ذات حق اور مخلوقات کے درمیان واسطہ ہیں، نیز عالم وحدت محض کو کثرت تفصیلی سے مربوط کرنے کا ذریعہ بھی ہیں۔
حدیث کے اس حصے میں اس بات کا بیان ہوا ہےکہ یہ ہستیاں اصل وجود کے لحاظ سے واسطہ اور وسیلہ ہیں، نیز وہ اس رحمت رحمانیہ کے مظہر ہیں جو اصل وجود کے افاضہ کی علت ہے بلکہ یہ کہا جاسکتا ہےکہ مقام ولایت کے حساب سے وہ خود رحمت رحمانیہ ہیں بلکہ وہ خود اسم اعظم ہیں اور رحمن و رحیم، اس اسم اعظم کے تابع ہیں جیسا کہ حدیث کا دوسرا حصہ یعنی حضور ؐ کا یہ قول:" ہم فرشتوں سے بہتر کیوں نہ ہوں" اس بات کو بیان کررہا ہےکہ یہ معصومین ؑ کمال وجود کے لحاظ سے واسطہ ہیں اور یہ کہ وہ اس رحمت رحیمیہ کے مظہر ہیں جس کی بدولت کمال وجود کا ظہور ہوتا ہے۔
بنابریں، ان کے طفیل دائرہ وجود کامل ہوا ہے اور غیب و شہود کا ظہور ہوا ہے اور وجود کے ارتقا و نزول کے لحاظ سے فیض الٰہی جاری و ساری ہوتا ہے۔
شیخ محی الدین ابن عربی نے اپنی کتاب فتوحات مکیہ میں کہا ہے: " بسم ﷲ الرحمٰن الرحیم" کے ذریعے وجود کا ظہور ہوا۔ پس یہ باور کرلینا چاہئے کہ پورا دائرۂ وجود ان تین اسماء کے تسلّط اور احاطے میں ہے؛ البتہ پہلے اسم یعنی ﷲ میں جمع و اجمال کی صورت میں اور دوسرے دو اسماء یعنی رحمن و رحیم میں تفصیلی طورپر۔
امام خمینی(رح)، امامت اور انسان کامل، ص۷۹