منتخب کلمات، ص 63
حضرت فاطمہؑ سلام اللہ علیہا، رسول اللہ ؐ اور حضرت خدیجہ ؑ کی بیٹی، امام علیؑ کی شریک حیات، امام حسنؑ و امام حسینؑ اور جناب زینبؑ کی والدہ گرامی ہیں۔ اہل تشیع، قرآن و روایات کی روشنی میں آپؑ کی عصمت کے قائل ہیں اسی بنا پر آپؑ کو چودہ معصومین اور پنجتن آل عبا [اصحاب کساء] میں شمار کرتے ہیں۔ زہرا، بَتول، سیدۃ نساء العالمین اوراُمّ اَبیہا آپؑ کے مشہور القاب میں سے ہیں۔
عیسائیوں کے ساتھ مباہلہ کے دن رسول اکرمؐ نے خواتین میں سے صرف آپ کو اپنے ساتھ لے گئے۔ سورہ کوثر، آیہ تطہیر، آیہ مودت، آیہ اطعام اور پیغمبر اکرمؐ کی مشہور احادیث جیسے حدیث بِضعہ اور حدیث لولاک، آپ کی فضلت میں وارد ہوئیں ہیں۔
مصحف فاطمہؑ، فرشتوں کے ذریعے خداوند متعال کیجانب سے آپ پر ہونے والے الہامات پر مشتمل ہے جسے امام علیؑ نے تحریر فرمایا۔ یہ کتاب ائمہ معصومینؑ کے پاس محفوظ تھی اور اس وقت امام زمانہ(عج) کے پاس موجود ہے۔
آپ نے پیغمبر اکرمؐ کی رحلت کے بعد سقیفہ بنی ساعدہ میں خلافت اور پیغمبر اکرمؑ کی جانشینی سے متعلق پیش آنے والے واقعات کی شدید مخالفت کرتے ہوئے ابوبکر کی بیعت سے انکار کیا۔ باغ فدک کے غصب اور امام علیؑ کی خلافت کے دفاع میں آپ نے مسجد نبوی میں ایک مشہور خطبہ دیا جو خطبۂ فدکیہ کے نام سے معروف و مشہور ہے۔
اہل تشیع حضرت فاطمہؑ کی سیرت کو اپنے لئے نمونہ عمل سمجھتے ہیں اور ان کی شہادت کے ایام کو ایام فاطمیہ کے عنوان سے عقیدت و احترام کے ساتھ مناتے ہیں۔
پیغمبر اکرمؐ کے وصال کے کچھ ہی عرصہ بعد ابوبکر کی خلافت کے حامیوں کیجانب سے آپ کے دروازے پر لانے والے حملے میں آپ زخمی ہوئیں اور اسی صدمے کی وجہ سے 3 جمادی الثانی سنہ 11 ہجری قمری کو مدینہ میں انتقال کر گئیں اور آپ کی وصیت کے مطابق رات کی تاریکی میں خفیہ طور پر آپ کو سپرد خاک کی گئیں اور آج تک آپ کی قبر مطہر کے بارے میں کسی کوئی علم نہیں ہے۔
فضیلت کے تمام پہلو جو ایک عورت کیلئے قابل تصور ہیں، [بلکہ کمالات کے] تمام گوشے جو ایک انسان کیلئے تصور کئے جا سکتے ہیں، حضرت فاطمہ زہراء سلام اللہ علیہا میں جلوہ نما اور موجود تھے۔
صحیفہ امام، ج۷، ص۳۳۷