کسی مکتب یاخاص نظریہ کی حقیقت کو معلوم کرنے کیلئے ضروری ہے کہ پہلے یہ معلوم کیا جائے کہ اس مکتب کی فکری بنیادیں اور خدا شناسی کی نوعیت کیاہے کیونکہ جب تک کسی مکتب کے نظام اعتقادات اور اس پر حکمفرما نظریہ کی نوعیت معلوم نہ ہو اس کے خارجی امور کی حقیقت کا اندازہ نہیں لگایا جاسکتاہے پس امام خمینی(ره) کے اخلاقی مکتب کی حقیقت کو معلوم کرنے کا تعلق اس سے ہے کہ آپ کے نظام اعتقادات کی حقیقت کو معلوم کیا جائے یا یہ دیکھا جائے کہ جہا ن اور انسان کے بارے میں آپ کی بنیادی معرفت کیاہے۔ د وسرے الفاظ میں یہ کہاجائے: کسی مسلک یا مکتب کی حقیقت کو معلوم کرنے کیلئے اس کے منبع ومنشاء کو معلوم کرنے کی اہمیت بہت زیادہ ہے۔ اگر امام خمینی (ره) کی اخلاقی حقیقت د وسری اخلاقی حقیقت سے ممتاز ہو تو اس میں ذرا بھی شک نہیں کہ اس کی معرفت کی بنیاد وں کو بھی متمائز ہونا چاہئے یعنی امام خمینی (ره) کی خداشناسی، جہا ں شناسی، قرآن شناسی اور انسان شناسی دوسروں سے بالکل الگ ہوگی۔
آپ کے مکتوب اور منظوم آثار میں تھوڑا غور کرنے کے بعد یہ ا ندازہ لگایاجاسکتاہے کہ آپ کے اعتقادی نظام میں خداہی سب کچھ ہے وہی اصل اور پہلاسنگ بنیاد ہے اور ا ن کا خداصرف وہ خدا نہیں ہے جو جمال ورحمت اور رأفت والاہے بلکہ وہ خدا صاحب جلال وقہر وعزت ہے۔ اسی طرح آپ کے اعتقاداتی نظام میں جس خداکا بیا ن ہے وہ محض تنزیہی اور بعض متکلمین کا تشبیہی خدا نہیں ہے بلکہ تنزیہ، عین تشبیہ میں اور تشبیہ، عین تنزیہ میں ہے۔
جہا ن اور قرآن یہ د ونوں ایسے ہی خداکا مظہرہیں جیساکہ حضرت علی ؑ فرماتے ہیں : ’’فتجلّیٰ لہم سبحانہ في کتابہ من غیر أن یکونوا رأوہُ‘‘۔ خدا اپنی کتاب میں لوگوں کیلئے آشکا ر ہوگیا ہے جبکہ انہوں نے اس کو سر کی آنکھوں سے نہیں دیکھا ہے۔) نہج البلاغہ،خطبہ ؍۱۴۷(
پس قرآن حضرت حق کی ایک مکتوب تجلی ہے اور عالم وآدم اس کی مشہود تجلی ہیں ۔ اس خدا شناسی میں ’’انسان کامل‘‘ بھی ایک خاص مفہوم پیداکرلیتاہے۔ انسان کا مل یا ولی اللہ اور نبی اللہ، وہ ہوتاہے جو حضرت حق کی خلافت وجا نشینی کی صلاحیت رکھتاہے اور اس کے تمام جمالی وجلالی صفات کو اپنے ا ند ر آشکا ر کرتاہے۔ یہ انسان صرف وحدت ہی میں مستغرق نہیں ہوتا بلکہ کثرت کے بھی ملازم ہوتاہے جیساکہ عقل کی پابندی اور عرف کی طرف توجہ کرنے کے ساتھ ساتھ وہ بڑی گہرائی کے ساتھ وحی اور عرفانی شہود کا اہل ہوتاہے۔ یہ انسان وہ انسان ہوتاہے جس کا عشق حضرت حق سے آتشی ہوتاہے، اس کی عقل وخرد پختہ ہوتی ہے، اس کی قدرت وتوانائی بڑھ چڑھ کر ہوتی ہے، اس کا جوش وولولہ ربا نی ہوتاہے اور وہ عین کثرت میں مقام وحدت رکھتا ہے ۔
واضح ہے کہ اس نظر سے انسان کو دیکھنا یہ توحید جمالی وجلالی کا سرچشمہ ہے اور یہ انسان تعلیم وتربیت کے مقصد میں ایک معیار ومیزا ن کا درجہ رکھتاہے اور د وسری طرف خارجی امور اور کسی خاص فضیلت کے نظام کو تشکیل دیتاہے جسے اخلاق ربا نی یا نبوی سے تعبیر کیا جاتاہے۔ یہ اخلاقی نظام، توحیدی نقطہ نظر سے سیراب ہو کر کسی خاص مکتب کو معین کرتاہے اس نظام یا اخلاقی مکتب میں کسی طرح کی ذلت نہیں قبول کی جاتی جیساکہ رحمت اور خداسے عشق ومحبت نیز تمام مخلوقات وموجودات سے عشق سارے اصول میں سے ایک نہایت اہم اصل ہے ۔