علی الظاہر، حضرت امام(رح) سنہ 1298 (1919ء) میں 17 سال کی عمر میں اراک کے حوزہ علمیہ میں داخل ہوتے ہیں۔ جب مرحوم آیت اللہ حائری اراک سے زیارت کےلئے قم تشریف لاتے ہیں اور قم میں حوزہ علمیہ تاسیس کرتے ہیں۔ اس وجہ سے طلاب اور آپ کے عزیز شاگرد (منجملہ حضرت امام) جو اراک میں تھے، قم چل پڑتے ہیں۔ حضرت امام قم میں، مرحوم آیت اللہ حائری سے مزید خارج فقہ اور اصول کی تعلیم حاصل کرتے ہیں۔ اسی دوران حضرت امام فقہ، اصول، فلسفہ اور اخلاق پڑھنے کے ساتھ ساتھ، پڑھاتے بھی تھے۔
امام مدرسہ فیضیہ میں طلاب کی ایک بڑی تعداد اور گلی و بازار کے عام لوگ کے حضور میں درس اخلاق دیتے تھے اور درس اخلاق کے مطالب کو عوام کی سطح پر بیان فرماتے تھے۔ درس میں حاضر ہونے والے بعض کے کہنے کے مطابق امام (رح) کا درس اخلاق بہت ہی تعمیراتی تھا اور بعض اوقات رونے اور استغاثہ کی صدا مسجد میں گونجتی تھی، خاص کر جب حضرت امام آخرت اور معاد کے متعلق مسائل کی تشریح کرتے تھے، مجلس میں حاضر عوام میں بہت زیادہ تاثیر اور تاثر پیدا ہونے کی موجب بنتی تھی۔
وہ تمام افراد جو جوانی میں امام (رح) سے آشنا تھے اور دوستی و رفاقت کا سابقہ رکھتے تھے، آپ کو نفسانی ریاضت وتہذیب کے سخت پابند جانتے تھے۔ حضرت امام (رح) اہل تہجد اور اللہ کے ساتھ راز و نیاز کرتے تھے اور جس مجلس میں غیبت ہوتی تھی، حاضر نہیں ہوتے اور کسی بھی صورت میں آپ کے حضور میں کسی کو غیبت کرنے کی اجازت نہیں دیتے تھے اور امام (رح) کے یہ اخلاقی صفات حوزات علمیہ میں سب کی سر زبان تھیں۔
آپ تہذیبِ نفس کے ساتھ سیاسی فعالیتوں سے غافل نہیں رہے، چاہے مرحوم آیت اللہ حائری یزدی اور چاہے مرحوم آیت اللہ العظمی بروجردی کے دور میں بھی معاشرے کے سیاسی مسائل میں فعال حصہ لیتے تھے۔
امام (رح)، مرحوم آقائے حائری یزدی کی رحلت کے بعد حوزہ علمیہ کی علمی حیات کےلئے سب سے اہم مسئلہ، حضرت آیت اللہ العظمی بروجردی کا قم میں مستقر ہونا جانتے تھے۔ والدہ بقول، امام کبھی پچاس سے ساٹھ خط پورے ملک کے علمائے کےلئے اپنے ہاتھ سے لکھتے تھےکہ وہ آقائے بروجردی سے درخواست کریں کہ قم تشریف لائیں۔ علمائے عظام اور خاص کر حضرت امام کی کوششوں سے مرحوم آیت اللہ بروجردی قم میں قیام پر راضی ہوئے اور اس طرح قم میں تاسیس شدہ نئی علمی درسگاہ کے بنیادیں مضبوط اور نمایاں طور پر طاقتور ہوئیں۔
آیت اللہ العظمی بروجردی کی رحلت کے وقت، امام کی عمر تقریباً 63 تھی، کچھ علما اپنی توضیح المسائل تدوین اور چھاپ کر باٹ چکے تھے لیکن امام بالکل بھی ان مسائل سے دور رہیں۔
حضرت امام چاہے مرحوم آقائے حائری اور چاہے مرحوم آقائے بروجردی کے دور میں ہر وقت حوزہ علمیہ کی مختلف تحریکوں اور مقابلوں میں پیش پیش تھے۔ مثال کے طورپر آقائے بروجردی کے دور میں سیاسی حالات کے پیش نظر جو مسائل پیدا ہوئے تھے، آپ حضرت آیت اللہ بروجردی اور علمائے اعلام کے نمائندے کی حیثیت سے شاہ کے ساتھ بات چیت کرنے پر مجبور ہوئے، کیونکہ مراجع عظام اور علمائے کرام کی رائے یہ تھی کہ ایک ایسے نمایندے کو جانا چاہیئے جو ہماری بات کو واضح اور دو ٹوک الفاظ میں شاہ تک پہنچائے۔
اور یہ کام حاج آقائے روح اللہ (حضرت امام خمینی) کے علاوہ کسی اور سے نہیں ہوسکتا اور آپ نے دو ملاقاتوں میں، واضح الفاظ میں مراجع عظام اور علمائے اعلام کے نظریات اور مطالبات کو شاہ تک پہنچایا اور اسے اپنی منحوس سیاسی سرگرمیوں کی عاقبت سے خبردار کیا۔
منبع: امام خمینی[رح] فارسی پورٹل