وہ رات بھولنے کی نہیں جب عراق کی بعثی افواج نے خرم شہر پر قبضہ کر لیا تھا۔ حقیر اور دوسرے افراد جو عراقی حملوں کی لمحہ بہ لمحہ خبر رکھتے تھے وہ لمحات میرے لئے قابل فراموش نہیں ہیں ۔ فون کٹ جاتا تھا اور محلے یکے بعد دیگرے خون آشام بعثی فوج کے قبضے میں چلے جاتے تھے یہ خبریں ہتھوڑے کی طرح ہمارے سر پر لگتی تھی۔ دفتر میں موجود دوست احباب اتنے پریشان تھے کہ وہ صرف فون کا جواب دے پاتے تھے۔ کسی میں دوسرے سے بات کرنے کی سکت موجود نہیں تھی۔ بہرحال اتنا کٹھن وقت جیسے گزرتا گیا یہاں تک کہ ایک دفعہ خرم شہر کے ہاتھ سے نکل جانے کی خبر سر پر ہتھوڑے کی طرح لگی۔ دوستوں نے امام کو اس بری خبر کی اطلاع دینے کیلئے مجھے مقرر کیا۔ شہر پر قبضے کے دکھ سے میرا دم گھٹ رہا تھا۔ میں ڈر رہا تھا کہ اس صدمے کی وجہ سے شاید ٹھیک سے بات نہ کر سکوں گا۔ ان خیالات کے ساتھ میں امام کے پاس گیا۔ جیسے میں کمرے میں داخل ہوا سب نے پریشانی کے ساتھ میری طرف نگاہیں اٹھائیں اور پوچھا کہ کیا ہوا ہے؟ خدا جانتا ہے کہ بہت کم دفعہ اس طرح سے پریشان ہوا ہوں ۔ بڑی مشکل سے جواب دے پایا کہ ’’کچھ نہیں ‘‘ امام ؒ میری اس حالت زار کو سمجھ چکے تھے۔ اس لیے دوسرا کوئی سوال نہیں پوچھا۔ میں امام کے قریب بیٹھا اور ٹی وی دیکھنے لگا۔ تین چار منت گزر نے کے بعد مجھ سے ایک دفعہ سوال کیا کہ ’’اب نئی کیا خبر ہے؟‘‘ میں نے انتہائی پریشانی اور دکھ بھرے لہجے میں
جواب دیا کہ خرم شہر پر عراق کا قبضہ ہو گیا۔ انہوں نے ایک دفعہ ذرا تلخ لہجے میں فرمایا: ’’یہ جنگ ہے، بعض دفعہ ہمارا قبضہ تو بعض دفعہ ان کا قبضہ‘‘ نہیں معلوم ان چند مختصر جملوں نے میرے اندر کیا اثر کیا۔ البتہ حقیقت میں اس معروف ضرب المثل کی تطبیق ہوگئی کہ جیسے ٹھنڈے پانی کی ایک بالٹی میرے سر پہ ڈال دی گئی ہو۔ میری ساری پریشانی دور ہوگئی ایسا لگ رہا تھا کوئی جنگ ہی نہیں ہو رہی ہو۔