سنہ ۱۳۲۱ ھ ش (۱۹۴۲ء) کے بعد معمولاً امام گرمیوں میں مشہد مشرف ہوتے تھے اور ہمارے مدرسہ کے ایک دو سینیر طلبہ ان کے ہمراہ ہوتے تھے اور وہ امام سے ملاقات وغیرہ کا پروگرام سٹ کرتے تھے۔ مدرسہ کا ایک چھوٹا سا کلاس روم تھا۔ علماء کا ایک خاص طبقہ کہ جن کی تعداد دس یا پندرہ سے زیادہ نہیں ہوتی تھی جو امام کو پہچانتے بھی تھے، آپ کی ملاقات کو آتے اور زیادہ رفت وآمد رکھتے تھے۔ اس جگہ کی سر پرستی ایک بزرگ عالم دین کے ہاتھ میں تھی کہ جو امام کے پکے دوست تھے۔ رمضان کا مبارک مہینہ تھا اور گرمی کا موسم۔ راتوں کو سحر کے وقت تک مسجد گوہر شاد لوگوں سے بھری رہتی تھی۔ لوگ رات کو نہیں سوتے تھے تاکہ رات کی فرصت سے استفادہ کریں اور پھر دن میں سوجاتے تھے۔ میں مسجد گوہر شاد جاتا تھا جہاں پر بڑے بڑے علماء وواعظین تقریر کرتے۔ ان میں سے ایک میرے والد بھی تھے۔ مسجد گوہر شاد کے اندر اور صحن میں بھی کچھ افراد دعاؤں میں مصروف رہتے تھے۔ میں مسلسل یہ دیکھتا تھا کہ امام اپنی عبا زمین پر بچھائے، لوگوں کے درمیان بیٹھے ہوتے تھے۔ اس وقت لوگ امام کو نہیں پہچانتے تھے۔ صرف مخصوص لوگ تھے جو ان کو جانتے تھے۔ رات کے نو بجے جب میں وہاں سے حرم کی زیارت کیلئے گزرتا تو دیکھتا تھا کہ امام بیٹھے ہوئے دعائیں پڑھ رہے ہیں ۔ میں حرم جاتا اور وہاں نماز پڑھتا تھا۔ مسجد کے کونے میں چند طلبہ کے ساتھ میرا مباحثہ بھی ہوتا تھا۔ پھر تقریباً تین گھنٹہ بعد جب واپس نکلتا اور اس جگہ سے گزرتا تو دیکھتا تھا کہ امام ابھی تک بیٹھے ہیں اور نماز ودعا اور قرآن کی تلاوت میں مصروف ہیں ۔ ان کے اس حوصلے اور صبر پر میں حیران رہ جاتا تھا کہ اس قدر دعا اور عبادت والے ہیں ۔